وقت ایک انمول دولت ہے اور اس کی اہمیت سے وہی لوگ واقف ہوتے ہیں جو جانتے ہیں کہ وقت ہمارے ساتھ نہیں بلکہ ہم وقت کے ساتھ چلتے ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسان وقت پر قابو نہیں پا سکتا ہے۔جب انسان وقت پر قابو نہیں پا سکتا ہے تب ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو وقت کے تقاضوں کے مطابق گزاریں۔آدمی کے طرز اوقات گزاری سے اس کی زندگی کے مقاصد کا پتا چلتا ہے کہ وہ زندگی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔اﷲ رب العزت نے تما م انسانوں کو سال کے 365دن اور 12 مہینوں کا عظیم تحفہ یکساں عنایت فرمایا ہے۔ہر انسان کو ہفتے کے سات دن اور ہر دن کے 24گھنٹے ،1440منٹ اور86,400سیکنڈ دستیاب ہیں۔یہ گھڑیاں بعض افراد کو زیادہ اور بعض کو کم کیوں محسوس ہوتی ہیں؟اس سوال کا نہایت ہی آسان اور سہل جواب ہے کہ’’ کسی بھی فرد کی تنظیمی صلاحیت اس کے شخصی شوق و ذوق، ضروریات،سکت و توانائی اور قابلیت کا پر تو ہوتی ہے۔‘‘ تنظیم اوقات سے عاری دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو وقت کو برباد کرتے ہیں اور دوسرے درکار جگہ کے درسست استعمال سے نابلد حضرات۔ طلبہ جب اپنے وقت اور جگہ کے درست استعمال ،تنظیم و ترتیب سے آشنا ہوجاتے ہیں تو ان کی زندگی سہل اور آسان ہوجاتی ہے۔ہے۔بہتر زندگی میں ترتیب و تنظیم کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں وقت کے ساتھ جگہ کی ترتیب و تنظیم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اکثر طلبہ وقت کی تنظیم و ترتیب کو تو ملحوظ رکھتے ہیں لیکن جگہ کے درست استعمال اور سلیقہ مندی سے خو د کو عاری رکھ کر ذہنی الجھن اور پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔جو لوگ بامقصد زندگی گزار نا چاہتے ہیں یقینا ان کی زندگی میں ترتیب و تنظیم پائی جاتی ہے۔تنظیم و ترتیب کوئی عطائی شئے نہیں ہے جس کی ہم صرف آرزو ہی کر سکتے ہیں۔ ترتیب ،تنظیم اور سلیقہ مندی انسان اپنی کوشش ،کاوش اور مسلسل عمل سے حا صل کر سکتا ہے۔امت مسلمہ اپنے عروج کے دور میں جن اچھے اوصاف کی وجہ سے مشہور تھی ان میں زندگی میں تنظیم و ترتیب بھی ایک اہم وصف ہے۔ایک مسلمان طالب علم کے لئے کیا ہر انسان کے لئے نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ موجود ہے ۔بنی اکرم ﷺ کی زندگی میں ہر کام میں ہم کو تنظیم و ترتیب دیکھنے کو ملتی ہے۔ہرکام کا ایسا نظام الاوقات اور ہر چیز کو ایسی جگہ پر رکھا گیا ہے کہ اس میں کسی تبدیلی کی آج بھی کوئی ضرورتمحسوس نہیں ہوتی ۔ہر طالب علم کے لئے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کاادراک ضروری ہے ۔جب طلبہ اپنی صلاحیتوں سے واقف ہوجاتے ہیں تو ان کو نکھارنے اور پروان چڑھانے کے لئے ایک منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی شخصیت کو موثر اور بہتر بنا سکیں۔منصوبہ بندی کے ذریعہ ایک مصروف آدمی بھی ہمیشہ فارغ رہ سکتا ہے بقول بل کلنٹن سابق صدر امریکہ ’’ایک مصروف آدمی کو ہمیشہ فرصت حاصل رہتی ہے۔‘‘میر ے پاس وقت نہیں ہے۔رکھی ہوئی چیز مجھے نہیں مل رہے ہے یہ ایک معذور ذہن کے حامل افراد کے بہانے ہوتے ہیں۔فورڈ کار کے موجد و مالک ہنری فورڈ کے مطابق ’’اگر نظام الاوقا ت کی مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو اتنی وقت میں دگنا کام کرتے ہوئے ہم دباؤ اور تناؤ سے خو د کو بچا سکتے ہیں۔‘‘امریکہ کے صدر سے لے کر ہماری ریاست کے چیف منسٹر تک سب کو صرف 24گھنٹے ہی دستیاب ہیں۔پھر وہ کیسے تمام امور میں توازن بر قرار رکھ رہے ہیں اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ان کی زندگی میں تنظیم و ترتیب ہر وقت ہر پل دیکھی جاسکتی ہے۔
افراد کو بنیادی طور پر دو قسموں میں ایک ٹائم کنٹرولر(Time Controllers) اور دوسرا اسپیس کنٹرولر(Space Controllers) میں تقسیم کیا گیا ہے۔جان گیرے(John Grey)کے مطابق ٹائم کنٹرولرس کی مزید پانچ قسمیں پائی جاتی ہیں۔
کلف ہینگرس(Cliff Hangers)تساہل پسند لوگ:
تساہل پسندی کے شکار افراداکثر فیصلہ سازی کے عمل میں تاخیر کے عادی ہوتے ہیں یا پھر لمحہ آخر تک کسی کام کو ٹالنے یا موخر کرتے ہیں۔یہ لوگ جب تک ان پر کوئی بیرونی دباؤ اثر انداز نہیں ہوتا ،کام کی طرف مائل یا راغب نہیں ہوتے ہیں۔تساہل اور ٹال مٹول کرنے والے ایسے اشخاص کو کلف ہینگر س کہا جاتا ہے۔یہ لوگ تخمینہ سازی ،موازنہ اور اوقات کی تنظیم میں بہت ہی کمزور واقع ہوتے ہیں۔ٹال مٹول کی کیفیت کے عادی طلبہ کیلنڈریعنی انجام دینے والی سرگرمیوں کی ایک جامع فہرست کی تیاری (تقویم سازی) اور مصنوعی دباؤ پیدا کرنے کی عادات کو اپنا کر اپنی تساہل پسندی پر قابو پاسکتے ہیں ۔ مصنوعی دباؤ کی پیدائش سے مراد دلچسپ سرگرمی یا کام کو کسی اہم کام کے بعد اہمیت یا ترجیح دینا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ایک طالب علم کو رات میں چند کام انجام دینے ہیں جیسے
اپنے دوست سے گفتگو کرنا
آدھے گھنٹے کے لئے ٹیلی ویژن دیکھنا
رات کا کھانا کھانا
سونے سے قبل ایک گھنٹے تک اپنے اسکول یا کالج کے نوٹس لکھنا۔
اگر آپ تساہل پسندی (کلف ہینگر)کے شکار ہیں تب آپ رات کے کھانے پر نوٹس لکھنے کو ترجیح دیں تاکہ کھانے کے بعد آپ کی تساہل پسندی عود کر آپ کو پڑھنے اور لکھنے سے باز نہ رکھے۔
کمالیت پسندی کا شکار اشخاص(Perfectionists)
کمالیت پسندی کے مرض کا شکار افراد کسی بھی کام کو بہتر سے بہتر کرنے کی دھن میں اس کی جزئیات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے اکثر اپنے کام کو پائے تکمیل تک نہیں پہنچا پاتے ہیں اور ان کا کام ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔اس کیفیت کے حامل افراد کو کمالیت پسندی کے فریب میں گرفتاراشخاص (Perfectionists) کے نام سے معنون کیاگیا ہے۔عمومی طور پر یہ لوگ نہیں سمجھ پاتے کہ ان کی اوسط کارکردگی بھی لوگوں کو بہتر طور پر قبول ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ عدم قبولیت کے وہم میں گرفتا ر رہتے ہیں۔ یہ اکثر کم ہمتی اور پست حوصلے کے حامل ہوتے ہیں۔اگر آپ کمالیت پسندی کے فریب کا شکار ہیں تو لازمی ہے کہ آپ اہم اور ضروری کاموں کی ترجیحات کے مابین تمیز کی صلاحیت پیدا کر یں تاکہ معمولی قسم کے کاموں میں اپنے معیار کو کم کر تے ہوئے کام کوپائے تکمیل تک پہنچا سکیں۔کمالیت پسندی کے مرض کی وجہ سے اکثر کام تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے ہیں ایسی بیکار اور فضول قسم کی کمالیت پسندی سے اجتنا ب بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔امتحان کے وقت کمالیت پسندی کے اسی مرض کی بناء طلبہ ایک ہی سوال پر اتنا وقت صرف کردیتے ہیں کہ دیگر سوالات کے جوابات تحریر کرنے کے لئے وقت کی تنگی ہوجاتی ہے۔سوال کی اہمیت اور نشانات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر طلبہ جواب تحریر کریں گے توانھیں وقت کی تنگی کا شکوہ نہیں ہوگا۔کمالیت پسندی کے فریب میں ملوث افراد معیار کو بنیاد بنا کر کوئی بھی کام انجام دینے سے احتراز کرنے لگتے ہیں۔کام کو لگا تار اور مسلسل کرتے رہنے سے اس میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ابتدائی مراحل میں ہی اگر معیار کو بنیاد بنا کر طلبہ کام سے فرار حاصل کرنے لگ جائیں تب ناکامی ان کا مقدر بن جائے گی۔
اچھلو قسم کے طلبہ(Skippers)
اچھلو قسم کے طلبہ اکثر منصوبہ سازی میں پیش پیش اور عمل میں پیچھے رہتے ہیں۔وہ بڑے مقاصدکے تعاقب میں لگے رہتے ہیں اور مجموعی طور پر مسائل کو بہتر طور پر حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن بے صبر ی ان کے مزاج کا ایک اہم عنصر ہوتی ہے۔ایک طالب علم جو اپنے امتحان کے جوابی بیاض کو لوٹانے سے پہلے اس کی جانچ نہیں کر تاوہ بھی اچھلو(Skipper)کہلاتا ہے۔ خوش فہمی کی وجہ سے تفصیلات کو معمولی جان کر طلبہ جب روگردانی کر تے ہیں تب کئی تشویشناک پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں۔اس تبا ہ کن عادت سے چھٹکار ا حاصل کرنے کے لئے طلبہ اپنی روز مرہ زندگی میں انجام د ی جانے والی سرگرمیوں کی ایک فہرست کو تیار کرتے ہوئے اور اس کی جانچ و تنقیح کے ذریعہ اپنے ہر فعل کی اصلاح کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
تماشہ بین (Fence Sitter)
فیصلہ سازی میں ٹال مٹول سے کام لینے یا پھر مسائل کے مثالی حل کے متلاشی عادت کے حامل افرادکوئی فیصلہ کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں ان کو تماشہ بین (Fence Sitters) کہا جاتا ہے۔غلط فیصلہ سازی کے خوف سے یہ کوئی فیصلہ ہی نہیں لے پاتے ہیں۔ایک تما شہ بین فطرت کا حامل فرد اپنی کامیابی پراپنے دوستوں کے لئے ایک دعوت (پارٹی) کا اہتمام کرنا چاہتا ہے لیکن دعوت کو ملتوی کر دیتا ہے کیونکہ کبھی اس نے دعوت کا اہتمام ہی نہیں کیا ہے۔ریاضی (Mathematics)،کیمیاء(Chemistry)،طبعیات(Physics)یا کوئی اور مضمون کو مشکل سمجھ کر اس کو نہ پڑھنا طلبہ کی مشکلات کو اور بڑھا دیتا ہے۔جب کسی مشکل کا آپ کو اندازہ ہوجائے تب اس کو آسان بنا نے کی آپ کو سعی و کوشش کرنے چاہئیے نہ کہ مشکل سے دامن بچانے کے لئے میدان عمل سے ہی راہ فرار اختیار کر لی جائے ۔یہ کمزورں اور بزدلوں کا شیوہ ہوتا ہے۔تماشہ بینی کی کیفیت سے دوچار طلبہ کسی بھی کام کو شروع کرنے اور آگے بڑھانے کے فن سے نا بلد ہوتے ہیں۔والدین اور اساتذہ کو ایسے مرحلوں میں اپنی رہنمائی کے فرائض اتم طور پر انجام دینے ہوتے ہیں۔طلبہ ایسے مرحلے میں کام کو مختصر کرتے ہوئے ، متبادلات کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے، ترجیحا درجہ بندی کرتے ہوئے اور کام کی تکمیل کے لئے ایک حتمی تاریخ مقرر کرتے ہوئے اس کیفیت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
Hoppers
بیک وقت کئی کام انجام دینے کی کوشش میں سبھی کاموں کو نا تمام ہی چھوڑ دینے والے افراد کو Hoppers کہا جاتا ہے۔یہ جلد باز ی اور تنوع سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ بہت جلد مطمین و مسرور ہوجاتے ہیں۔ اپنی بھر پور توانائی استعمال کرتے ہوئے یہ نہ صرف خو د کو فعال رکھتے ہیں بلکہ بیک وقت کئی منصوبوں کو پائے تکمیل تک پہچانے کااشتیاق بھی رکھتے ہیں۔لیکن اس فطرت کے حامل اکثر افراد خود کے یقین و اعتماد پر کامل نہیں اتر پاتے ہیں۔اگر ایک طالب علم اپنے میں جب اس کیفیت کو محسوس کرتا ہے جو اس کی پڑھائی اور تعلیمی سرگرمیوں کے لئے تباہی و بربادی کا باعث ہوتی ہے تب وہ اپنے افعال و اعمال کی بہتری کے لئے خصوصی منصوبہ بندی کر ے اور اسمارٹ(SMART) کے اصول کو اپنائیں۔یعنی مقاصد =Specific S مخصوص ہوں عمومی بالکل نہ ہوں۔ مقاصدM=Measurableیعنی قابل پیمائش ہوں،مقاصدA=Attainable قابل حصول و قابل عمل ہوں،مقاصد R=Realisticیعنی حقیقی ہوں اتنے چھوٹے بھی نہ ہوں کہ آپ کو تحریک بھی نہ دے سکیں اور اتنے بڑے بھی نہیں کہ آپ کے متعین کردہ وقت میں ان کو حاصل کرنا ناممکن ہو۔مقاصد T=Timeboundیعنی ان کی مدت معین ہوں۔بڑے کام کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں تقسیم کرتے ہوئے اور ہر چھوٹے ہدف کے لئے ایک وقت مقرر کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی جانب طلبہ رواں دواں رہ سکتے ہیں۔طلبہ کے اس عمل کی وجہ سے ان کو اپنے محاسبے کی عادت پڑجائے گی۔خود احتسابی ایک عظیم دولت ہوتی ہے اور جو اس سے متصف ہوجاتا ہے اس پر قدر ت مہربان ہوجاتی ہے اور اس پر علم ودولت کے خزانے لٹا دیتی ہے۔مذکور ہ پانچ شخصیات کی خصلتوں کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بہت زیادہ فرق نہیں پایا جاتا ہے۔ان پانچ شخصیتوں میں پائی جانے والی خصلتیں مختلف تناسب اور مختلف حالات میں ہر ایک انسان اور طالب علم میں پائی جاتی ہیں۔تعین کردہ مقاصداورمقاصد تک رسائی ،مقاصد کے حصول میں کن امور پر قابو پانا اور کن امور کو آزادی فراہم کرنا،کب اور کہاں آرام کرنا اور کسیے مقصد کے حصول میں تندہی سے لگے رہنا ان تمام خصلتوں سے آگہی پیدا کرتے ہوئے طلبہ اپنے علمی سفر کو آسان اور پر کیف بنا سکتے ہیں۔
اسپیس کنٹرولر(Space Controllers)
ٹائم کنٹرول خصلت پر سیر حاصل گفتگو کے بعد اب اسپیس کنٹرول پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے ۔جب کوئی انسان کسی خا ص اور اہم کام کی انجام دہی میں منہمک ہوجاتا ہے تب افراتفری اور تنظیم و ترتیب سے پر ماحول کا پایا جانا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی ہم ہر شئے کو اس کے مقام پر رکھ سکتے ہیں۔جسے اسپیس کنٹرولنگ یعنی ترتیب اشیاء کہاجاتا ہے۔اسپیس کنٹرولر بھی پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔(1)ذخیرہ اندوز (Dumpers)یہ لوگ اپنی میز پر ہر چیز کو سجاکر خوش ہوجاتے ہیں کہ وہ اتنے سارے کام انجام دے رہے ہیں۔اس خصلت کے طلبہ سوچتے ہیں کہ چلو آج کام کو اکھٹاکرلیتے ہیں اور کام کی اشیاء نوٹس کتابوں اور دیگر دستاویزات کو بنا کسی احیتاط اور ترتیب کے یہاں وہاں اہم کاغذات کو کتابوں کے اندر رکھ دیتے ہیں۔ کام کے وقت اشیاء کی تلاش میں اپنا قیمتی وقت تباہ کردیتے ہیں۔ذخیرہ اندوزی کے شائق طلبہ میں جگہ کی ترتیب اور تنظیم کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ضرورت کی وقت بہت ہی پریشان اور الجھن میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔والدین بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی اشیاء کی ترتیب ،درجہ بندی ، اشیاء کو اٹھا کر رکھنے اور وقت ضرورت بغیر کسی الجھن کے ان کو حاصل کرنے کی سلیقہ مندی جیسے اپنے اسکولی جوتے، موزوں،اسکول بیاگ ،پین ،پنسل اور دیگر اشیاء کو سلیقہ مندی اور ترتیب سے رکھنے اور ان کو بغیر کسی الجھن اور وقت کی بربادی کے حاصل کرنے کی تربیت کا اہتمام کریں۔(2)کلین ڈسک(Clean Desk)کلین ڈسک سے مراد ہر شئے کو ترتیب اور سلیقہ مندی سے رکھنے والے طلبہ ہوتے ہیں۔اپنی زندگی میں سلیقہ مندی اور ترتیب کی وجہ سے ان کاکام او ر کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔یہ ہر شئے کوریکارذکرنے کے عادی ہوتے ہیں۔کلین ڈسک خصلت کے حامل افراد سختی سے روزانہ کام کی منصوبہ بندی کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔جب انسان اپنے روز مرہ کے افعال کی انجا م دہی کی منصوبہ بندی نہیں کرتا ہے تب وہ ذہنی الجھن و خلفشار کا شکار ہوکر اپنے معلنہ کام کی انجا م دہی میں ناکام ہوجاتا ہے۔(3)درست زاویہ نگا ہ کے حامل افراد(Right Anglers)جب تک یہ اشیا ء کو سلیقہ مندی سے رکھتے ہیں تب تک ان کو کسی بھی طرح کی افراتفری سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔یہ لوگ صفائی اور ترتیب کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ہر شئے پر قابو اوراس کو درست رکھتے ہوئے کامیاب و کامران ہوجاتے ہیں۔ آدمی سلیقہ مندی اور درجہ بندی کو اس حد تک نہ سوار کر لیں کہ کو ئی کام ہی آگے نہ بڑھنے پائے۔جب تک معمولی نظم(orthodox management)سے کام چلتا ہے اس سے کام لیتے رہیں۔ افراتفری اور بے ترتیب سے بچاؤ کے لئے سختی سے ان عادات کو تج دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس زمرے کے طلبہ اکثر بڑے کام انجام دینے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ وہ اس کو ایک ہی نشست میں مکمل نہیں کر سکتے ہیں۔اسی لئے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہر بڑے کام کوآسان بنانے کے لئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹتے ہوئے انجام دیں تاکہ باآسانی کام کی تکمیل کو ممکن بنایا جاسکے۔(4) خول خود فریبی میں محروس افراد(پیاک ریاٹس)(Pack Rats) ؛جو شخص اپنی زندگی میں ترتیب و تنظیم کی کوئی سعی نہیں کر تا اور سمجھتا ہے کہ اس کی مراد کبھی نہ کبھی ضرور پوری ہوگی ایسے افراد کو پیاک ریاٹس کہا جاتا ہے۔یہ لوگ اپنے دسترس میں واقع اشیاء کے بارے میں بہت زیادہ جذباتی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے غیر ضروری اشیاء کو بھی ایک خزانے سے کم نہیں سمجھتے ہیں۔کونسی شئے کو رکھا جائے اور کس کو پھینک دیا جائے یہ اس بات کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ایسی خصلت کے حامل طلبہ کو چاہیئے کہ وہ غیر ضروری اشیاء سے مفت یا معمولی قیمت پر دستبردار ہوجائیں۔طلبہ جگہ اور آرام کی اہمیت و افادیت کوملحوظ رکھیں۔(5)بد سلیقہ اشخاص(Total Slobs) یہ بھی ریاٹ پیاک افراد کی طر ح ہی ہوتے ہیں لیکن ان میں ایک فرق پایا جاتا ہے کہ یہ کسی بھی شئے کو بغیر کسی ارادے اور مقصد کے ذخیرہ کرتے رہتے ہیں۔اپنی دسترس میں موجود اشیاء کی قدر و قیمت سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی فضول اشیاء سے یہ چھٹکارا حا صل کر نے کاکوئی ارادہ کرتے ہیں۔یہ اپنی زندگی اور اشیا ء میں تنظیم و ترتیب سے نفرت کرتے ہیں۔بچوں میں دراصل یہ رجحان ماں باپ کی جانب سے خراب تربیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔یہ غیر حا ضردماغ،چڑچڑے اور جلد آپے سے باہر ہونے اور افسردہ رہنے والے افراد ہوتے ہیں۔طلبہ اس کیفیت سے اپنی زندگی میں بتدریج تبدیلی اور تنظیم و ترتیب کو جگہ دیتے ہوئے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔مثلا اپنے کپڑوں اور دیگر اشیاء کو ادھر ادھر نہ پھینکیں اور ان کو ایک جگہ رکھتے ہوئے اپنے زندگی میں ترتیب و تنظیم کو پیدا کرنے کو کوشش کر یں۔
اب طلبہ کو خو د فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کونسے معیار زندگی کو اپنائیں گے۔اپنی جگہ کو صاف اور ترتیب و تنظیم سے رکھنا آپ کی شخصیت کی غمازی کرتا ہے۔آپ کو یہ علم ہونا ضروری ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں ،اور چاہی جانے والی شئے تک آپ کیسے پہنچ پائیں گے اور نہ بھی پہنچ پائیں تب آپ کیا کر یں گے۔انیسویں صدی کا ایک معروف شاعر فلسفی گوئٹے(Goethe) کہاتا ہے کہ “Things which matter most must never be at the mercy of things that matter least”(جو چیزیں نہایت اہم ہوتی ہے ان کو غیر اہم چیزوں کے رحم و کرم پر کبھی نہیں چھوڑا جاسکتا )اور جو اس بات کو اپنے زندگی کا جزو بنا لیتے ہیں وہی زندگی ترتیب و تنظیم والی زندگی کہلاتی ہے۔طلبہ اگر زمانہ طالب علمی سے وقت کی تنظیم اور جگہ کی ترتیب کی اہمیت کو ملحوظ رکھیں تو یقینی طور پر وہ مستقبل میں ایک کامیاب اور ذمے دار شہری بن سکتے ہیں۔تنظیم و تربیت کے ذریعے ہم اپنی زندگی کو الجھنوں اور پریشانیوں سے پاک کر سکتے ہیں۔تنظیم و ترتیب کے ذریعہ نہ صرف طلبہ اپنی ذات کے لئے مفید ہوجائیں گے بلکہ یہ چیز قوم و ملت کے لئے ایک بہترین خدمت بھی ہوگی۔معروف فلسفی افلاطون کا قول نہ صرف طلبہ بلکہ ہر انسان کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔’’وقت ایک ایسی زمین ہے جس میں محنت کیے بغیر کچھ پیدا نہیں ہوتا ۔اگر محنت کی جائے تو زمین پھل دیتی ہے اور اگر بے کار چھوڑ دی جائے تو اس میں صرف خاردار جھاڑیاں ہی اگتی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے کرنے کے کام میں سو فیصد کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اس بات سے ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ ترجیحات کا علم تو ایسے وقت پر ہی کار آمد ہوتا ہے ۔اہمیت کے لحاظ سے کام کو ترجیح دیں اور اسے انجام دیں۔معاملات اور معمولات میں ہر حال میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔بشیر جمعہ نے اپنی کتاب شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر میں شیر شاہ سوری کا ایک بہت ہی پیارا قول نقل کیا ہے میں اپنے مضمون کو اسی قو ل پر ختم کرتے ہوئے آپ کو فکر و عمل کی دعوت دیتا ہوں’’بڑا آدمی وہ ہے جو اپنا سارا وقت ضروری کاموں میں صرف کرے۔‘‘
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...