دور حاضر میں اقبال شکنی ہمارے یہاں کے کچھ دانشوروں کا وتیرہ بن چکا ہے۔اقبال جہاں ایک مفكر ، فلسفی ، اور حکیم الامت کے طور پر جانے جاتے ہیں وہاں تصو ف سے دل جمعی رکھنے والوں کے یہاں ان کو قلندرِلاہور سے منسوب کیا جاتا ہے، قیام ِپاکستان کے اعتبار سے اقبال کی شخصیت کو مصوّ ر پاکستان بھی مانا جاتا ہے، مغرب و مشر ق میں اقبال کو جو کلیدی اہمیت حاصل ہے وہ اپنی مثا ل آپ ہے، جہاں مشر ق و مغر ب میں اقبال کی فکر ، فلسفہ خودی ، عشقِ رسا لت ، جدید اسلامی و فلاحی جمہوری ریاست ، غرض اسلام کی عالمگیر تمد نی طاقت کے عملی وجو دپر اقبال کے نقطہ نظر کو بڑ ی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہاں دوسری طرف مغر بی دانشور ، مفكر ، اصلاح کار ، سخت تنقید کا بھی نشانہ بناتے رہے ،خیر ! جتنی بڑ ی شخصیت اتنی ہی بڑ ی تنقید یہ تو ا بد سے ازل ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا۔
ہمارے ہاں نوجوان نسل فکر اقبال سے بالکل نا آشنا نظر آتی ہے، شاید یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں، افسوس صد افسوس ۔۔۔۔!!!!!
آج پاکستانی قوم جس نسلی ، لسانی ، مذہبی منا فر ت ، اور عملی واحد ت ، امن ، بھائی چارہ ، اخو ت ، احساس ، تصور شنا خت ذات اور بے راہ روی کا شکا ر نظر آتی ہے، اسکا سد باب صرف فکر اقبال میں ہی پو شیدہ ہے مگر ہم کب اقبال شکنی جیسے مرض سے آزاد ہوں گے؟؟یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ دنیا کے جدید انسانی تخلیق کردہ نظام خاص طور پر معاشی نظام پر اور مادہ پرست جمہوریت پر جس انداز سے اقبال نے تنقید کی تھی آج وقت ثا بت کر چکا ہےکہ وہ مرد درویش ہر بات حرف با حرف سچ کہ گیا ہے ۔دنیا کے سارے جدید انسانی نظام جو اسلام کو ضابطہ حیات ماننے سے گریز ا ں تھے وه سب اپنی موت مرچکے ہیں ، مکمل زمین بوس ہو چکے ، آخری سسکی بھر رہے ہیں اتنے گہر ے زخم شاید ہی کسی مفكر سے مغرب کو ملے ہوں ، فکر اقبال نے پوری طر ح مغر بی سامرا ج ، مادہ پرست جمہوریت کا اصل چہرہ اپنی فکر میں پیش کیا ہمارے ہاں بھی جمو د ی طبقہ فکر اقبال کو سمجھنے سے قا صر رہا ہے، جدید مغرب انسانی وجود کے صرف جسم اور ہمارے ہاں اکثر طبقہ اسے صرف روح کے مصداق جمود کا قائل رہا ،دراصل دونوں طبقا ت ہی اصل فکر کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں،
وقت کی نزا کت یہی ہے اب نوجوان نسل کو اقبال شناس بنانا ہوگا، بیدار ی کی لہر پیدا کرنا ہوگی ، قرآن فہمی ، سیر ت آل رسولؐ ، اورتاریخ اسلام ،اصل جدید دور سے ہم آہنگ کر کے فکر اقبال کی ترو یج کرنا کرنا ہوگی۔ اسلامی و فلاحی جمہوری ریاست کی فکر اقبال ہی سے ممکن ہے ،شاہینِ کاروا ں ہی اس ملک و ملت کو گہر ے اندھیرنگری ۔چوپٹ راج سے نکال سکتا ہے،ایک انقلابی روح بیدار کر سکتا ہے، روشن مستقبل کی ضمانت دے سکتا ہے، امید کے دیپ جلا سکتا ہے۔ مگر یہ کب ھوگا کون کرے گا محض کھلے سوالات کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
میرا تو ماننا اب یہ ہے کہ فکرِ اقبال کو بنیاد بنا کر ایک ایسی سیاسی قوت میدان عمل میں آئے جو روحانی و اکتسا بی وجود سے بھر کر ظلم و مظلوم کی بات کرے۔ الغرض اللہ کی حا کمیت، نبیؐ کی غلامی ، انسانیت کی بلا رنگ و نسل بے لوث خدمت یہی تصور جدید اسلامی و فلاحی ریاست ہے اور یہی بقا ئے پاکستان ہے۔