رات کی چاندنی پوری آب و تاب سے روشن تھی ۔ٹھنڈی ہواؤں کا بسیرا تھا۔سردیوں کی آمد آمد تھی۔ اس لیے سناٹا اس قدر تھا کہ دبے دبے قدموں سے چلنے والے شخص کی آہٹ بھی محسوس ہو سکتی تھی۔اسی اندھیر کے عالم میں ایک 30 سالہ فوجی جوان کیپٹن آصف خان جو کہ (ملک کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر فوج کے ساتھ جنگ کرنے نکلا تھا) اپنے خیمے میں تن تنہا رب کے حضور بے بس غلاموں کی طرح سر جھکائے کھڑا تھا۔ حقیقت میں وہ چاہے مشکل حالات ہوں یا خوشی کے مواقع۔ وہ اپنے رب کو کبھی نہیں بھولتا تھا۔۔وہ اپنی عبادت میں اس قدر مشغول تھا کہ خیمے کے باہر کھڑے شخص کی خبر تک نہ تھی۔
رب کے آگے وہ اتنا گڑگڑا رہا تھا کہ ایسے لگتا تھا کہ وہ اپنے کسی عزیز کو کھو چکا ہے۔ وہ یہ تک نہ جانتا تھا کہ رب سے کیا فریاد کر رہا ہے۔ یقیناً وہ رب کی عبادت کرتے ہوئے رب تعالیٰ (بادشاہ) کو اپنے قریب محسوس کر رہا تھا۔ در حقیقت میں بادشاہ کے آگے غلام سر جھکائے ہی کھڑا رہتا ہے۔
سلام پھیرتے ہی اسے باہر کھڑے شخص کا سایہ چاند کی سفید روشنی میں نظر آگیا۔۔۔۔۔ داد کا مستحق ہیں وہ نڈر کیپٹن۔۔۔۔ بغیر خوف کے اس نے بلند آواز سے کہا۔۔۔۔کون ہے باہر۔۔۔؟ سامنے آؤ۔ حالانکہ وہ خوف محسوس کر سکتا تھا کہ موت کا پروانہ تو نہیں آ گیا۔ کیونکہ وہ اس وقت دشمن کے بہت ہی قریب خیمہ زن تھے۔
“السلام علیکم عزیز آصف خان۔۔۔۔۔! میں کرنل ابراہیم۔”۔کرنل ابراہیم خیمے میں داخل ہوتے ہی بول اٹھا۔
پریشانی کرنل ابراہیم کے لہجے سے عیاں تھی۔ لیکن وہ اپنے معزز سپاہی کے سامنے قابو کر رہا تھا۔ کیونکہ اس کی پریشانی سے فوج ہمت ہار سکتی تھی۔
” وعلیکم السلام! آئیں سر بیٹھیں۔۔آصف خان اپنی جگہ سے اٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ گیا۔ حقیقت میں وہ کرنل ابراہیم کا بہت احترام کرتا تھا۔ اس لیے کرنل ابراہیم۔بھی آصف خان سے دلی محبت رکھتے تھے۔
کافی دیر خیمے میں خاموشی طاری رہی۔ پھر کرنل ابراہیم۔خاموشی کو توڑتے ہوئے گویا ہوئے
” عزیز دوست! آصف خان تم جانتے ہو کہ ہم اس وقت کن حالات سے دوچار ہیں۔۔۔۔؟”
کرنل ابراہیم گھبرا رہا تھا لیکن آصف خان کی موجودگی اسے کافی حد تک سکون دے رہی تھی۔
” جی سر! جن کے ساتھ اللّٰہ ہو وہ کبھی خوف نہیں کھاتے”
۔آصف خان اب اس صورتحال پر قابو پاچکا تھا کیونکہ وہ ایک شیر تھا،۔ایک اللّٰہ کا مجاہد تھا۔ پھر آصف خان نے کرنل ابراہیم۔کو پانی کا گلاس تھمایا اور پھر گویا ہوا۔۔۔۔۔
” سر آپ کس چیز کی بے سکونی سے دوچار ہیں۔۔۔۔؟”
“بھلا میں بھی سکون سے رہ سکتا ہوں ہماری سرحد اس وقت بہت ہی خطرے میں ہے۔ دشمن ہماری ذرا سی کوتاہی کی دیر میں ہے اور تو اور ایک کوتاہی ہماری بربادی کا سامان بن جائے گی۔ دشمن کے مقابلے میں ہماری تعداد صرف 150 ہے اور وہ 500 کی تعداد میں۔ ان کے پاس جدید اسلحہ اور ہمارے پاس صرف پستول۔۔۔۔۔۔”
۔کرنل ابراہیم اپنے دل کی بات کہہ بیٹھا تھا۔ جو پریشانی اسے اندر ہی اندر کھا رہی تھی وہ اب انڈیل چکا تھا۔
آفرین ہے اس مجاہد پر، اس غلام پر وہ بغیر ہچکچائے گویا ہوا
“سر آپ کو جنگ بدر تو بہت اچھے طریقے سے یاد ہوگی۔ مسلمانوں اور کافروں کی تعداد میں کتنا فرق تھا۔ پھر ہمیں کیوں خوف ہو سکتا ہے۔۔۔۔؟
عزیز آصف تم سمجھ نہیں سکتے۔ دیکھو اس وقت ان کے ایمان بہت مضبوط تھے۔ اور وہ اللّٰہ پر بہت بھروسہ رکھتے تھے۔ تم جانتے ہو ہمارے پاس نہ ایمان کے رکھوالے ہیں نا ہی اللّٰہ پر بھروسہ کرنے والےاچھا چلیں مان لیا۔ ہمارا ایمان کمزور ہے لیکن آپ اور میں تو وحدہ لاشریک پر بھروسہ رکھتے ہیں ناں۔”
” میرے بہادر ایسے کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔۔۔؟ ہم بھروسہ نہ کریں۔ لیکن۔۔۔۔۔۔” کرنل ابراہیم نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ پھر۔کچھ لمحے کے بعد دوبارہ گویا ہوا۔۔۔۔۔
” جانتے ہو آصف میں یہاں کیوں آیا ہوں۔۔۔۔؟”
آصف خان نے اثباتی میں سر ہلایا تو کرنل۔صاحب پھر گفتگو کو جوڑنے لگے۔
“آج کے بعد نہ جانے ہم کب ملیں۔۔لیکن میرے بہادر اور نڈر سپاہی تم پہاڑی کی دائیں جانب بالکل پیچھے 20 سپاہیوں کے ساتھ جم کر دشمنوں کے خلاف اپنی قوم کی خاطر دفاع کرتے رہو گے۔ جب تک میرا حکم نہ آجائے تم وہاں سے نہیں ہٹو گے۔ یاد رکھنا شہادت ہمارا مقصد ہے۔ “
کرنل ابراہیم سپاہیوں کی فہرست دیتے ہوئے آصف خان کے گلے لگ گیا۔۔جو بند لگا ہوا تھا آخر وہ ٹوٹ گیا۔
” جی سر آپ بے فکر رہیں۔ آپ کے حکم کی تعمیل ہو گی۔ انشاءاللّٰہ!۔اللّٰہ ہمارے سر پر آپ کا سایہ ہمیشہ قائم رکھے اور شہادت بھی ایک ساتھ نصیب کرے۔( آمین)۔
آصف خان کی بھی ہچکی بندھ چکی تھی۔ لیکن کرنل ابراہیم نے اُسے اللّٰہ حافظ کہا اور فوراً خیمے سے باہر چلا گیا۔ کیونکہ وہ ایک لمحہ بھی مزید نہیں رک سکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ رکنے سے دونوں اپنے ضبط پر قابو نہیں رکھ سکیں گے۔
“سر ہم آپ کے حکم کے مطابق اب بھی وہی ہیں۔ دشمن مسلسل بارود کا استعمال کر رہا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم آخری بارود بھی استعمال کرلیں۔۔۔۔؟ سر اس وقت ہم دشنوں کے سخت گھیرے میں ہیں۔ ہمارے پاس اسلحے کی شدید کمی ہے۔ اگر آپ حکم دیں تو آخری بھی استعمال کر لیں۔۔۔۔؟
۔سر آپ کو میری آواز آرہی ہے۔۔۔۔۔؟ سر آواز آرہی ہے۔۔۔۔؟ سر۔۔۔۔؟؟”
اسی کے لائن ڈارپ ہوچکی تھی لیکن کوشش کے باوجود رابطہ ناممکن تھا۔
۔ آصف خان۔آسمان کی طرف منہ اٹھائے ہوئے رب کی ملاقات کے لیے ترس رہا تھا۔ دل کٹ رہا تھا، رب سے ملنے کو تڑپ رہا تھا۔۔آخر آنکھوں سے سیلاب رواں ہوا اور بچپن سے لے کر جوانی کی فلم آنکھوں سے گزر گئی۔ کس طرح وہ ماں باپ کا فرمانبردار تھا، کہ کیسے وہ ہر وقت اللّٰہ سے ملنے کے لیے تڑپتا تھا، کتنا وہ نرم خو تھا۔کیسے وہ غرور و تکبر کو اپنے قریب پھٹکنے تک نہ دیتا تھا، کیسی اس نے شرم وحیاء پال رکھی تھی، کیسے اس نے زندگی دین اور دنیا کی تبلیغ کرنے میں گزاری تھی،، آج کیسے وہ بے بس تھا صرف اپنے رب کی رضا کی خاطر، صرف اپنے ملک و قوم کی خاطر، آج اپنی زندگی قربان کرنے والا تھا۔ آج اپنے بیوی بچوں کو تنہا چھوڑ کر جانے والا تھا۔ کیسا ہی انوکھا مسافر ہے۔
” سر سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ ہمیں چاہیے کی آخری بارود بھی استعمال کر لیں۔ اس سے پہلے کچھ ہوجائے۔۔۔۔ آصف خان نے تمام فوجیوں کو حکم دیا اور آخری بارود بھی استعمال کر لیا۔
کچھ لمحے کو دشمن کی جانب سے خاموشی چھا گئی۔ آصف خان دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن رابطہ اب بھی ناممکن تھا۔۔۔۔۔۔
جب دشمنوں کی جانب سے مسلسل خاموشی چھائی رہی تو مسلمان خوشی سے سجدہ شکر میں گر گئے۔ آصف خان بھی سجدے میں۔گر گیا اور رب کی پاکی بیان کرنے لگا۔۔شکر سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔۔۔
آصف خان اسی حالت میں تھا کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور ہر طرف گہما گہمی کا ماحول پیدا ہوگیا۔
بے اختیار آصف خان کے منہ سے نکلا اشھد الہٰ الا اللّٰہ واشھد ان محمد عبدہ و رسول اللّٰہ۔۔۔۔۔
آصف خان نے کان کے ساتھ فون لگا رکھا تھا۔ رابطہ ہو چکا تھا۔
” آصف خان کیا صورتحال ہے۔۔۔۔؟؟ تم میری آواز سن سکتے ہو۔۔۔۔؟؟”
دوسری جانب سے کرنل ابراہیم مسلسل بولے جا رہا تھا لیکن آصف خان کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ موت کا فرشتہ آن پہنچا اور جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔
اب مسلسل کرنل ابراہیم، آصف خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اب رابطہ کرنے میں وہ ناکام تھا۔ کیونکہ آصف خان رب کے حضور پہنچ چکا تھا۔ اپنی زندگی جس رب کے لیے گزاری تھی۔۔۔۔۔ ایک لمحے میں اس سے ملنے پہنچ چکا تھا۔
مسلمان فتح یاب ہو چکے تھے لیکن کرنل۔ابراہیم اپنے عزیز دوست آصف خان کی تلاش میں تھا تا کہ۔اُس سے بھی اپنی خوشی کا اظہار کر لے۔ آخر کار بڑی تگ و دو کے بعد کرنل کو آصف خان سپاہیوں کے ہاتھ میں ملا۔ وہ بھاگتا بھاگتا آصف خان کی طرف لپکا۔۔سپاہیوں نے کرنل ابراہیم کے لیے احترامً اُسے نیچے لٹا دیا۔۔
آصف خان میرے عزیز دوست!جاگو۔۔۔۔۔ اٹھو۔۔۔۔۔ دیکھو ہم اللّٰہ کے کرم سے فتح یاب ہوگئے۔ ہماری سرحد سے دشمن بھاگ گئے ہیں۔ اٹھو تم فتح دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن آصف خان بے صد چہرے پر مسکراہٹ سجائے گہری نیند سو رہا تھا۔
کرنل ابراہیم کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ دیر تک وہ آصف خان کے پاس بیٹھا رہا، پھر بے اختیار اس کے منہ سے نکلا “آفرین ہے اس انوکھے مسافر جو اپنی زندگی کا سفر اتنی اچھی حالت میں طے کر گیا۔ آخر اس کے دل کی خواہش پوری ہوگئی۔ مجھ سے پہلے چلے گیا۔ حقیقت میں ہم دونوں نے ایک ساتھ رب کے حضور پہنچنے کا عزم کیا تھا۔ جب کہ میرا ایمان اتنا کمزور ہے کہ میں نے ابھی تک شہادت حاصل نہیں کی۔ حالانکہ میں اس عہدے پر عرصے سے نامزد ہوں۔ آفرین ہے اس انوکھے مسافر پر جس نے بہترین راہ کا انتخاب کیا۔ اللّٰہ اسے اپنی رحمت کے سائے میں جگہ عطا کرے۔(آمین)”
پھر کرنل صاحب نے آصف خان کا ماتھا چوما اور عزم کر کے اٹھ کھڑا ہوا کہ آج سے میں بھی آصف خان کی راہ پر چلوں گا اور اس جیسی ایمانی طاقت کے لیے جدو جہد کروں گا۔