ہمارے ملک کے اداروں کا جو حال ہے وہ تو اپنی خرابی کی وجہ سے سب کے سامنے عیاں ہے مگر انصاف فراہم کرنے کا ادارہ جس کو عدالتی نظام کہتے ہیں اس کا حال تو بڑا ہی فکر مند کردینے والا ہے ۔ ادارہ اپنے کام کی وجہ سے پہچانا جاتاہے اگر ادارہ اپنے کام کا حق ادا کرتاہے تو اس کے اچھے اثرات کو سبھی محسوس کرتے ہیں اور معاشرے میں اس کے اچھے نتائج سامنے آکر رہتے ہیں مگر اگر یہی ادارہ اپنے کام کا حق ادا نہیں کرتا تو اس کے بھی اثرات سامنے آتے ہیں اور اس کے اثرات بد کو بھی سبھی محسوس کرتے ہیں ۔
عدالتی نظام کو کسی بھی ملک کے اندر وہ مقام حاصل ہے جو جسم میں دماغ کا ہے یہ جتنا فعال ہوگا پورے جسم کی کارکردگی اتنی ہی اچھی ہوگی اور یہ جتنا زیادہ غیر فعال ہوگا جسم اسی نسبت سے مفلوج ہوتا جائے گا ۔ قوموں کی عروج و زوال میں اس کا بڑا حصّہ ہوتاہے ۔ملک وہی ترقی کے منازل طے کرکے دنیا میں نمایاں مقام حاصل کرتا جہاں کے عوام کو انصاف ان کے درواز ے پر میّسر آتاہے ۔جہاں پر مجرموں کو اس بات کا کوئی خطرہ نہ ہوکہ جرم کے بعد ان کو قرار واقعی سزا ملے گی، جہاں رشوت کے زور پر سب کچھ خرید ا جاسکتاہو، مجرم بے باک ہوجاتاہے اور وہ آزادانہ اپنی مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھتاہے۔ وہاں بڑے بڑے بااثر قاتلوں ، ڈاکوؤں اور دیگر اسی طرح کے جرائم پیشہ افراد کے گروہ وجود میں آجاتے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے کا امن تباہ ہوجاتاہے اور جہاں معاشرے کا امن تباہ ہوتاہے وہاں سب کچھ تباہ وبرباد ہوجاتا ہے ۔اور پھر وہ ادارہ اور اس میں کام کرنے والے افراد بھی محفوظ نہیں رہتے پہلے ان کا تقّدس پامال ہوتاہے اور پھر جو آگ انہوں نے اپنی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی سے دوسروں کے گھروں میں لگائی ہوتی ہے وہ آگ ان کے گھروں میں بھی پہنچ کر رہتی ہے ۔
گذشتہ دنوں یہ خبر پڑھ کر یہ احساس ہوا کہ صرف عوام ہی غیر محفوظ نہیں بلکہ اب تو آگ گھر تک پہنچ چکی ہے ۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن خاتون جج ڈاکٹر ساجدہ احمد نے چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان کو خط لکھا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ وکلاء کی جانب سے خواتین ججوں کو گالیاں دینے، ہراساں کرنے اور بدتمیزی کرنے پر ایکشن نہ لیا گیا تو وہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس کمیشن، وومین ججز اور انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن آف لائرز میں پاکستان کے شرپسند وکلاء کے کرتوتوں اور ججوں کیخلاف اُن کی بدتمیزیوں کو نمایاں کریں گی۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر ساجدہ احمد نے وکلاء مردوں کی جانب سے توہین آمیز الفاظ اور گالیوں کی شکایت چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے ایک خط میں کی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ہم فراہم کردہ مراعات جیسے گاڑی، لیپ ٹاپ اور اضافی تنخواہ کے بدلے اپنی خاندانی عزت کو داؤ پر نہیں لگا سکتے۔ اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے بہتر تھا وہ اپنا خاندانی کام چوپایوں کو چراتیں اور پاک زندگی گزارتیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اسلام میں خودکشی جائز ہوتی تو عدالت کی عمارت سے کود کر جان دے دیتیں کیونکہ اس پیشے میں وکلاء کی خواتین ججوں کو گندی گالیاں، ہراسگی اور بدتمیزی حد سے بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غیر پیشہ ور وکلاء کیخلاف تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 228 کے تحت اور توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی جارہی؟ آپ سنجیدگی سے مسائل کیوں نہیں حل کرتے یا آپ کو اپنی عدالت سنبھالنا نہیں آتی؟
انہوں نے کہا کہ یہ عظیم و مقدس پیشہ اب کالی بھیڑوں اور غیر پیشہ ورانہ افراد کے حوالے کردیا گیا ہے۔ قانون کی بالادستی کے حصول میں ہم ناکام رہے ہیں اور ہماری اصلیت اُس وقت دنیا نے دیکھی جب وکلاء نے امراضِ قلب کے ہسپتال پر اُس وقت حملہ کیا جب وہاں مریضوں کی جان بچائی جارہی تھی۔
یعنی کہ بڑی بے بسی کے ساتھ اعلٰی عدلیہ سے شکایت کی گئی ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ وہ اپنا خاندانی کام چوپایوں کو چراتیں یا اگر خودکشی جائز ہوتی تو عدالت کی عمارت سے کود کر جان دے دیتیں ۔
آخر یہ نوبت آئی کیسے۔۔۔یہ ایک دن کی خرابی نہیں ہے بلکہ یہ ناسور برسوں میں کینسر بنا ہے جب اپنا مکمل انصاف کا نظام ہوتے ہوئے غیروں کی کتابوں کو پڑھ پڑھ کر فیصلے کرتے رہے ۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے صاف صاف یہ بات کئی جگہ قرآن میں واضح طو ر پر فرمادیا ہےکہ
“اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام و قانون کے مطابق حکم نہ دیں وہی کافر ہیں۔” ( المائدہ 44)۔ دوسری جگہ فرمایا کہ “اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام و قانون کے مطابق حکم نہ دیں وہی ظالم ہیں۔”( المائدہ 45)۔اور تیسری جگہ ارشاد فرمایاکہ “اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون و شریعت کے مطابق حکم نہ دیں، فیصلے نہ کریں وہی فاسق ہیں۔” ( المائدہ 47)۔
اسلام کے نام پر وجود میں آتے والے اس مملکت خداداد پاکستان کے عدالتی نظام کو اللہ کی کتاب اور اس کی شریعت کے مطابق قائم ہونا تھا ۔مگر بڑی چالاکی کے ساتھ جس طرح ریاست کو کمیونزم اور سکیولزم سے اپنی آغوش میں لیئے رکھا اسی طرح عدلیہ نے بھی اپنے آپ کو جانتے بوجھتے کہ اسلام ہی کا عدل کامل نظام عدل ہے، اپنے آپ کو اس سے دور رکھا اور دور غلامی کے نظام عدل کو اپنے یہاں قائم رکھا ۔ اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے اور ہر آنے والی حکومت اور بالا دست کی خدمت اور چاکری میں عافیت جانی، امیر اور غریب کے لیے الگ الگ انصاف کے معیار قائم کئے ۔ عدالت کے باہر سائلوں کا ہجوم بڑھتا چلاگیا ۔ بلکہ کئی فیصلے تو مدعی کے مرجانے کے بعد ان کی اولادوں نے سنے ۔مجرم باعزت بری ہونے لگے اور بے گناہ اور معصوم شہری ان مجرموں کے ظلم کا نشانہ بننے لگے۔
یوں عدلیہ کا تقدّس خود ان ہی کی وجہ سے پامال ہوا ۔ مفادات کی اس گنگا سے وقتی طور پر تو سبھی نے ہاتھ دھوئے ہونگے مگر یہ تو اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا ۔عدلیہ کی بحالی اور آزاد عدلیہ کی تحریک بھی اس ملک میں چلائی گئی جس کو عوامی تائید بھی حاصل تھی اور دیگر سیاسی جماعتو ں نے بھی اس کو سراہا اور اس میں حصّہ لیا اور اس کے لیے جانوں تک کی قربانیاں دیں اور یہ امید ہوچلی تھی کہ اب عدلیہ آزاد ہوگی اور مظلوم کو سستا انصاف مل سکے گا جھوٹے گواہ اور جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے والے چرب زبان وکلاء سے سے قوم کی جان چھوٹے گی یہاں 12مئی کا دن یاد دلانا ضروری ہے کہ کس طرح ایک چیف جسٹس کو ائیر پورٹ سے بھی باہر آنے نہ دیا گیا اور کیا کیا متثّدد اور تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا گیا ۔مگر ان قربانیوں کا بھی پاس نہیں رکھا گیا ۔
انصاف فراہم کرنے والے اس درآمدی نظام نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ مکمل طور پر بانجھ ہے اس سے کبھی مظلومو ں کو انصاف نہیں ملے گا اور اس طرح خرابیاں بڑھتی رہیں گی۔ اے میرے دیس کے منصفواور وکلاء!اگر کوئی عدل کا نظام ہے تو وہ ہے اسلام کا نظام عدل اسی کے پاس ایک پوری روشن تاریخ ہے ۔ مغرب میں تو سورج بھی بے نور ہوجاتاہے وہاں سے کہاں عدل کی روشنی میّسر آسکتی ہے ۔سورج کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینا کہا ں کی عقلمندی ہے ۔