کیا واقعی ہر شخص کا اپنی ذاتی سطح پر فرانسیسی اشیاء کو ترک کرنا فرانس کو اس کے اس بہیمانہ فعل سے روک دینے کے لئے کافی ہوگا ؟اگر تو یہ مسٔلہ مسلمانوں کا محض ایک ذاتی نوعیت کا مسٔلہ ہے تو پھر ایسا حل تجویز کرنے کی کچھ بات بھی بنتی ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے طور پر ان اشیاء سے پرہیز کر لے اور بس، بات ختم ۔لیکن کیا یہ مسلمانوں کے لئے ایک اجتماعی نوعیت کا مسٔلہ نہیں کہ جس پر تمام مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے ریاستی سطح پر کچھ کیا جانا درکار ہو؟
لیکن اس کے جواب میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اشیاء کا بائیکاٹ مسٔلے کے اصل حل کے طور پر تجویز نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ وہ کم سے کم کرنے کا کام ہے جو ہم میں سے ہر ایک شخص کو کرنا چاہیئے۔ یہاں پہلی بات تو یہ عرض ہے کہ اگر تو اس کے ساتھ ساتھ اصل حل بھی تجویز کر دیا جاتا تو پھر تو ٹھیک تھا کہ ذاتی سطح پر مسلمان بھی کچھ کریں اور اجتماعی سطح پر ریاست بھی۔ لیکن جب زور و شور سے بات ہی صرف یہ کی جا رہی ہو کہ وہ”کم سے کم ” کیا ہے جو کیا جا سکتا ہو اور اصل حل کی بات ہی منظر سے غائب ہو تو ایسے میں تاثر تو یہی پیدا ہو گا کہ شائد اصل حل یہی ہے۔ اور بہت سے لوگ شائد یہ گمان کر بھی رہے ہیں۔
ایسے میں یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ یہ ملعون کفار پچھلے کئی سالوں سے وقتاً فوقتاًنجی سطح پر توہین آمیز کارٹون اور خاکے شائع کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن اس بار معاملہ مختلف ہے اور بہت سنگین بھی ہے۔ اب بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ توہین رسالت کا ارتکاب کر کے واصل جہنم ہونے والے فرانس کے ایک عام مڈل کلاس سکول ٹیچر سیمیول پیٹی کو باقاعدہ ایک تقریب منعقد کر کے نا صرف خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے بلکہ اسے فرانس کے اعلیٰ ترین تمغے یعنی ” لیجنآفآنر ” سے بھی نوازا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ فرانس میں یہ تمغہ پاکستان کے نشان حیدر کے قائم مقام ہے!پھر بات یہاں بھی رکتی نہیں بلکہ فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈوکے بنائے گئے توہین آمیز خاکوں کو ریاستی سطح پر فرانس کی سرکاری عمارتوں پر کئی گھنٹے تک آویزاں رکھا جاتا ہے۔ اور اس سب پر فرانسیسی صدرایمینیول میکرون کھل کر کہتا ہے کہ فرانس ایسا کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ تمام اقدامات اپنی نوعیت کے اعتبار سے مغربی تہذیب کی جانب سے اسلام کے عقیدے اور اسلامی تہذیب کے خلاف کسی اعلان جنگ سے کم نہیں۔
تو جہاں ایک طرف کفار کی جسارت اس حد تک آ پہنچی ہو اور مسلسل بڑھتی ہی چلی جا رہی ہو تو کیا دوسری جانب ہمارے لیے یہ سوچنا مناسب ہو گا کہ وہ “کم سے کم” کرنے کا کام کیا ہے جو ہم کر سکیں ؟کیا ہم قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کو یہ جواب دیں گے کہ جب ایک ریاست کی جانب سے پوری دنیا کے سامنے کھلم کھلا ہمارے پیارے رسول رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کی جا رہی تھی اور اس کا خوب پرچار کیا جا رہا تھا تو ہم نے وہ کیا جو اس وقت کم سے کم سطح پر کیا جا سکتا تھا؟ لہٰذا ایک بات تو طے ہے کہ اس مسٔلے کا حل محض اشیاء کے بائیکاٹ تک محدود نہیں ہو سکتا۔ یہ مسلم امت کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کا ایک طریقہ تو ہو سکتا ہے لیکن مسٔلے کا حل ہر گز نہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایک ریاست اس سلسلہ میں کیا اقدام اٹھا سکتی ہے اور یہ کہ اس مسٔلے کا اصل اور مستقل حل کیا ہے تو اس کی طرف آنے سے پہلے یہ جاننا نفع سے خالی نہ ہو گا کہ آخر مغرب کو کیا پڑی ہے کہ وہ آئے دن ایسے توہین آمیزخاکے شائع کرتا رہتا ہے اور ان کی ریاستیں اس کی مذمت کرنا تو درکنارایسے اقدامات کا مکمل طور پر دفاع کرتی ہیں؟ کیا ترکی کے صدر اردگان نے درست کہا ہے کہ فرانسیسی صدر میکرون کو اپنا دماغی علاج کرانا چاہیئے؟ اگر معاملے کا ذرا گہرائی میں جا کر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ فرانسیسی صدر میکرون کا دماغ خراب ہو گیا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ مغرب کی”آزادیٔ اظہار رائے ” کی فکر پر ایمان رکھنے والا ایک نظریاتی لبرل ہے۔ اور صرف میکرون ہی نہیں بلکہ یہ معاملہ مغربی تہذیب میں پائے جانے والے ہر اس شخص کا ہے جو نظریاتی طور پر لبرل ہے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ جب ڈنمارک کے مشہور روزنامہ اخبار” جائےلینڈز۔پوسٹن” نے ستمبر ۲۰۰۵ میں ۱۲ توہین آمیزخاکے شائع کئے اور ڈنمارک کی مسلم تنظیموں نے یہ معاملہ وہاں کی عدلتوں میں اٹھایا تو جنوری ۲۰۰۶ میں ڈینش عدالت کی جانب سے یہ کہہ کر مزید تحقیقات کو ختم کر دیا گیا کہ یہ معاملہ عوامی دلچسپی سے متعلق ہے اور یہ کہ ڈنمارک کے قوانین اور گزشتہ فیصلے عوامی دلچسپی سے تعلق رکھنے والے معاملات میں ” آزادیٔ صحافت ” کو یقینی بناتے ہیں۔ پھر مارچ ۲۰۰۶ میں مسلمانوں کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیل کے باوجود وہاں کی عدلیہ نے اپنے پچھلے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ اسی طرح جب فرانس کے میگزین چارلی ہیبڈو نے فروری ۲۰۰۶ میں توہین آمیزخاکے شائع کیے اور فرانس کی مسلم تنظیموں نے اس کے خلاف عدالتوں کا رخ کیا تو مارچ ۲۰۰۷ میں وہاں کی عدلیہ نےبھی کیس کو برخواست کر دیا۔ پھر جب چارلی ہیبڈو کے دفتر پرجنوری ۲۰۱۵ میں دو مسلمانوں نے حملہ کر کے اس کے ۱۲کارٹونسٹس کو ہلاک کر دیا تو فرانس سمیت بہت سے مغربی ممالک کے نظریاتی لبرلز نے ” میں چارلی ہوں ” کا نعرہ بلند کرتے ہوئےچارلی ہیبڈو اور “آزادیٔ اظہار رائے” کے حق میں احتجاجی ریلیاں نکالیں ۔
اسی طرح جولائی ۲۰۰۷ میں سویڈن کے ایک مشہور آرٹسٹ لارسوکس نے بھی توہین آمیزخاکے بنا کر ان کی تشہیر کی تھی ۔ لارسوکس کی “آزادیٔ اظہار رائے ” کے فروغ کے لئے پیش کی گئی خدمات اور قربانیوں کے نتیجے میں ڈنمارک نے اسے مارچ ۲۰۱۵ میں ” فری سپیچ ایوارڈ” سے نوازا۔ ڈنمارک، فرانس اور سویڈن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جب مارچ ۲۰۰۸ میں ہالینڈ کی ایک سیاسی جماعت کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ گیرٹولڈرز نے ” فتنہ ” کے نام سے ایک توہین آمیز فلم ریلیز کی تو ہالینڈ کی عدالتوں نے جون ۲۰۱۱ میں اسے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ یہ (یعنی توہین رسالت ﷺ) تو ان کے ہاں قانونی طور پر ایک جائز سیاسی بحث ہے۔گیرٹولڈرز کو ۲۰۰۹ میں “فری سپیچ ایوارڈ” ملا اور ۲۰۱۰ میں اسے یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے بھی “آزادیٔ فکر”کے ایوارڈ سے نوازا!
یہاں سوچنے کا مقام یہ ہے کہ توہین آمیز مواد بنانے والے اور ان کی تشہیر کرنے والے لوگ مغرب کے ہاں ہیروز کیوں گردانے جاتے ہیں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ مغرب کی اس مقدس فکر یعنی “آزادیٔ اظہار رائے” پر ڈٹ کر کھڑے ہیں جو ان کے ” سیکولرزم” کے عقیدے سے پھوٹتی ہے۔اسی لئے تو ان کی مبنی بر “انصاف” عدالتیں بھی ایسے لوگوں اور اداروں کو صاف و شفاف قرار دے کر بری کر دیتی ہیں کیونکہ ان کے ہاں مذہبی شخصیات کی توہین سرے سے کوئی جرم ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو ان کی ” آزادیٔ اظہار رائے ” کی اس مقدس فکر کا ایک ممکنہ بلکہ لازمی نتیجہ ہے۔ پھر ناصرف یہ بلکہ ان کی ” آزادیوں” پر مبنی فکر عین مذہب سے نفرت کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ مغرب کا عیسائیت کا تجربہ خوشگوار نہیں تھا چونکہ چرچ اور پوپ خدا کے نام پر لوگوں کی جان و مال کا استحصال کرتے تھے تو مغرب کے ہاں مذہب سے بیزاری کا رویہ رفتہ رفتہ پروان چڑھا، جو برطانوی اور فرانسیسی انقلاب کےدوران بالآخر مذہب سے آزادی پر منتج ہوا۔ لہٰذا مغرب کی ” آزادیوں” یا “فریڈمز” کی فکر مذہب کی عین ضد پر مبنی ہے۔ مغرب کے سیاسی فلسفے میں اس”آزادیوں” کی فکر کو اختیار کرنے کے بعد جس بھی تصور کا اضافہ ہوا ہے ،وہ تصور اسی بنیادی فکر سے ماخوذ ہے ، مثال کے طور پر جمہوری نظام کا تصور جس کی اصل بھی ” آزادی” ہے کیونکہ یہ قانون سازی کی آزادی ہے ۔ یعنی وحی الٰہی اور خدا کی راہنمائی سے ” آزاد ” ہو کر اپنی خواہشات کے مطابق جو جی میں آئےفیصلے کرنا۔
چنانچہ مسلمانوں کو توہین رسالت ﷺ پر مبنی مواد کے جواب میں جو بحث کرنی ہے وہ یہ ہرگز نہیں ہونی چاہیئے کہ “آزادیٔ اظہار رائے ” کی فکر تو درست ہے البتہ اس میں مذہبی شخصیات کی توہین پر قدغن ہونی چاہیئے۔ اسی بات کو تویورپی ممالک کی عدالتوں نے مسترد کیا ہے جو کہ مغربی فکر کی صحیح طور پر امین ہیں اور قانونی طور پر اس فکر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ ایسی کسی قدغن کو اپنی “آزادیوں” کی فکر کے خلاف قرار دیتی ہیں۔اس سلسلے میں جو اصل بات کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کی “آزادیوں “کی فکر ہی باطل ہے کیونکہ یہ بالخصوص عیسائی مذہب کے ساتھ تلخ تجربے کے بعد محض ایک رد عمل کے طور پر وجود میں آئی ہے ۔لہٰذا اس کی اپنی کوئی ٹھوس عقلی بنیاد نہیں ہے ۔اور یہ کہ اسلام ہی وہ واحد آئیڈیالوجی ہے جو ایک درست اور ٹھوس عقلی عقیدے پر قائم ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالی کا وجود اور محمد مصطفیٰ ﷺ کا سچا نبی ہونا قطعی طور سے ثابت ہے اور ان کے دلائل پر کھل کر بات ہو سکتی ہے۔
جہاں تک مغرب کی جانب سے ناموس رسالت ﷺ پر مسلسل حملے کرنے کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ اس حرکت سے وہ اس وقت تک باز نہیں آئیں گے جب تک کہ وہ اپنی “آزادیوں ” کی فکر پر نظریاتی طور پر قائم رہتے ہیں کیونکہ ان کی یہ فکر ہی انہیں اس بات کی کھلی اجازت دیتی ہے۔ لیکن مسلمان اس سے پہلے کفار کی طاقتور ترین ریاستوں کو توہین رسالت پر مبنی مواد کی تشہیر کرنے سے کئی بار کامیابی کے ساتھ روک چکے ہیں۔ ایسا آخری بار آج سے صرف سوا سو سال پہلے ہوا جب فرانس اور برطانیہ نے یکے بعد دیگرے توہین رسالت پر مبنی ایک سٹیج ڈرامہ دکھانے کا اعلان کیا تھا۔ اس پر مسلمانوں کے خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانی نے فرانس کے سفیر کو مدعو کر کے اسے کئی گھنٹے تک انتظار کرایا۔ پھر مکمل جنگی لباس زیب تن کر کے رعب کے ساتھ نکلے اور اس کے سامنے اپنی تلوار رکھی اور پھر کچھ کہے بغیر اس سفیر کو وہاں سے نکل جانے کا حکم صادر کیا۔ فرانس کو اس میں واضح پیغام مل گیا اور وہ توہین آمیز ڈرامہ نشر کرنے سے باز رہا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد جب برطانیہ نے لندن میں وہی ڈرامہ چلانے کا اعلان کیاتو خلیفہ نے اس کو بھی یہ ڈرامہ چلانے سے خبردار کیا لیکن جواب میں برطانیہ نے پیغام بھجوایا کہ اس کی ٹکٹیں فروخت ہو چکی ہیں اور اب ڈرامے کو رکوانا برطانیہ کے شہریوں کی آزادیوں کی خلاف ورزی کے مترادف ہو گا۔ اس پر خلیفہ المسلمین نے یہ پیغام بھجوایا کہ :”میں مسلم امت میں یہ حکم نامہ جاری کردوں گا کہ برطانیہ ہمارے نبی ﷺ پر حملہ آور ہو رہا ہے اور آپ ﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ اور میں جہاد کا اعلان کر وں گا “۔ یہ دیکھتے ہوئےبرطانیہ نے سرکاری طور پر معذرت نامہ جاری کیا اور ڈرامے کو رکوا دیا
اور یہ کوئی صدیوں پرانی بات نہیں بلکہ ابھی جنگ عظیم اول سے تھوڑا ہی پہلے کی بات ہے کہ جب مسلمانوں کی ریاست و خلافت اتنی طاقتور بھی نہ تھی اور اس کے بہت سے علاقوں پر برطانیہ یا فرانس قابض ہو چکے تھے۔ لیکن چونکہ مسلمانوں کی وحدت کی نمائندہ ریاست ابھی موجود تھی اور خلیفہ کا فرمان پوری مسلم امت کے لئے حکم کی حیثیت رکھتا تھا تو یورپ خلیفہ کے ایسے کسی حکم کے ممکنہ نتائج سے پوری طرح آگاہ تھا۔ ویسے بھی خلافت عثمانیہ کی افواج ماضی میں ایک سے زیادہ مرتبہ یورپ کے عین وسط میں قائم آسٹریا کے دارالحکومت ویینا کی فصیلوں تک پہنچی تھیں اور آدھے یورپ پر تو ویسے بھی خلافت عثمانیہ کی حکمرانی قائم رہی تھی، تو اس وقت برطانیہ اور فرانس کا مسلمانوں کی ریاست کی جانب سے جہاد کے خوف سے ڈرامے کو روک دینا ٹھوس زمینی حقائق پر مبنی تھا۔
آج فرانس کی سرکاری طور پر اور اس دیدہ دلیری کے ساتھ کی گئی اس گھٹیا جسارت پر اور پھر اپنے بیانات کے ذریعے اس پر مصر رہنے پر اول تو مسلمانوں کو ریاستی سطح پر فرانس سے تمام سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کر دینے چاہئیں اور فرانس کے ملک بھر میں قائم سفارت خانوں کو بند کر دینا چاہیئے اور ایسا اس وقت تک بدستور کیے رکھنا چاہیئے جب تک کہ فرانس کی جانب سے سرکاری طور پر معذرت نامہ جاری نہ کر دیا جائے اور مستقبل میں ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی نہ کرا دی جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا چیز ہے جس سے کفار کے دلوں پر رعب طاری ہو سکے تا کہ وہ مستقبل میں ایسے کسی اقدام سے باز رہیں۔ کیا اب اس بات کی ضرورت نہیں کہ آج سے تقریباً سو سال قبل کی طرز پر مسلمانوں کی ایک واحد ریاست کو دوبارہ سے وجود میں لایا جائے جس کو انہی کفار نے جنگ عظیم اول کے بعد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا تھا تا کہ وہ اس کے وسائل پر قبضہ کر سکیں۔ اگر مسلمانوں کی ایک متحد ریاست قائم ہو جائے جس طرح امریکہ پچاس ریاستوں پر مبنی ایک واحد اکائی ہے توآج بھی مسلمانوں کے پاس مجموعی طور پر اتنی افواج اور وسائل موجود ہیں کہ کوئی اس امت کے نبیﷺکو میلی نگاہ سے دیکھنا تو دور کی بات، اس کا تصور بھی نہ کر سکے گا!