یہ ایک غیر معمولی بحران تھا، جو ٹل گیا مگر کچھ عرصہ تک اس کا دھواں اٹھتا رہے گا. سندھ میں آئی جی پولیس کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ کچھ سامنے آچکا ہے، مزید آجائے گا. یہ طے ہے کہ آئی جی کی تذلیل کی گئی اور کیپٹن صفدر کو سبق سکھانے کے لئے کچھ سرخ لکیریں عبور کی گئیں. کیپٹن صفدر نے مزار قائد پر جو کچھ کیا، وہ غلط تھا، لیکن اس کی ناک رگڑنے کے لیے جو کچھ کیا گیا، وہ اس سے زیادہ غلط تھا.
آئی جی سندھ مہر مشتاق مرنجاں مرنج آدمی ہیں. ویسے بھی ایسے عہدوں پر پہنچنے والے مرنجاں مرنج ہی ہوتے ہیں. انہیں رات کے چار بجے اپنی خاندانی رہائش سے اٹھا کر ڈالے کا سفر کرانا اور سایوں سے ملاقات کی ضرورت نہیں تھی. جس نے بھی کیپٹن صفدر کے سمری ٹرائل اور فوری پھانسی کا حکم جاری کیا، اسے شربت بزوری معتدل پینے کی ضرورت ہے. یہ زیادہ سے زیادہ ایک ایس ایچ او یا ڈی ایس پی لیول کی اسائنمنٹ تھی جس میں ایک آئی جی کو گھسیٹا گیا. اب، آئی جی، پولیس کا جنرل لیول کے برابر کا افسر ہے. آئی جی، نوکری پیشہ آدمی ہیں اور ہرگز چی گویرا نہیں ہیں، ان کے اندر سے چی گویرا نکال لیا گیا ہے.
سایوں کی ساٹھ سالہ حکومت میں پہلے بھی یہ سب کچھ چلتا رہتا ہے. بازو بھی مروڑے جاتے ہیں، لیکن بہت کم. زیادہ تر لہجے کے زور پر یا گالم گلوچ سے کام چل جاتا ہے. پرسنل فائلیں بھی کافی کام آتی ہیں. تاہم سارے افسران پنجاب پولیس جیسے نہیں ہوتے جن کی کمر سے ریڑھ کی ہڈی پہلے شہباز شریف اور بعد میں تحریک انصاف کی حکومت نے نکال لی ہے.
گھوم پھر کر یہ کرائسس آف گورنینس ہے. اصل سوال وہی ہے کہ پاکستان کا مالک کون ہے؟ خاکی اور خفیہ ادارے بجا طور پر اپنے آپ کو مالک سمجھتے ہیں. عدلیہ سمجھتی ہے کہ تشریح کا اختیار اس کے پاس ہے کہ الاٹی کون ہے اور مالک کون ہے. بیورو کریسی کا سارا زور نوکری کرنے، مرضی کی پوسٹنگ لینے اور جو جیتے اس کے ساتھ بستر میں جانے پر صرف ہوتا ہے. کبھی ایک آنکھ، اور کبھی دوسری آنکھ بند کر لی جاتی ہے. اب یہ نہ پوچھئے گا کہ اس فارمولے میں عوام کیوں شامل نہیں ہیں.
جو کراچی میں ہوا، وہ پہلے بھی ہوتا رہتا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا. اسی طرح کے مقدمات بھی بنتے رہے ہیں، وزیراعظم برطرف ہوتے اور پھانسی لگتے رہے ہیں. بس لگتا یہ ہے کہ جن کے ذمےیہ کام لگایا گیا انہوں نے چول ماری اور کچھ سرخ لکیریں پار کر لیں.
اس وقت سندھ میں انتظامی بحران عروج پر ہے. لیکن یہ سیاسی بحران نہیں. بلاول بھٹو یا مراد شاہ کے کہنے ہر ایک سپاہی نوکری کو لات نہیں مارے گا. ایک ایسا ملک جس میں نوکری لینے کے لیے جان پر کھیلنے کی روایت ہو، اگر وہاں آئی جی، ڈی آئی جی، ایس ایس پی اور ایس ایچ او احتجاجی چھٹی پر جانے لگیں تو یہ طے ہے کہ “ڈنمارک کی ریاست میں سب اچھا نہیں ہے”.
پہلی مرتبہ 1972ء میں جب پنجاب پولیس نے ہڑتال کی تو کھر صاحب نے اسے متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ 24گھنٹے کے بعد اپنی ڈیوٹی پر واپس نہ آئے تو ساری پولیس فورس کو برخاست کردیا جائے گا اور پیپلز پارٹی کے جیالے تھانوں میں ڈیوٹی سنبھال لیں گے. یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور پولیس والے اپنی ڈیوٹی پر واپس آگئے۔
غالباً اس کے بعد ہی انہیں شیرپنجاب کا خطاب دیا گیا تھا۔ تاہم سندھ پولیس والے تنخواہوں میں اضافے کے لیے چھٹی پر نہیں جارہے. وہ تو وقار پر بوٹ آنے پر زخمی ہیں. ایک ڈی آئی جی لیول کے افسر سے بات ہوئی تو اس کے تاثرات واضح تھے “نوکری کے لئے پوری زندگی لیٹتے رہے ہیں، مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے”. لگتا ہے کہ وہ حد عبور کر لی گئی تھی. .
اس انتظامی نااہلی کے کچھ نتائج یہ نکلے ہیں :
1: پس پردہ ہاتھوں کی کہانی کوٹھوں چڑھی اور کو بہ کو پھیل گئی
2 : توپ سے مکھی ماری گئی اور وہ بھی بچ نکلی. کیپٹن صفدر ضمانت پر باہر آگیا.
3: کیپٹن صفدر جیسی ہومیو پیتھک اور سائیں شخصیت کو راتوں رات لیڈر بنا دیا گیا. اس کوشش میں شریف خاندان دو عشرے میں کامیاب نہیں ہوا.
4: پیپلز پارٹی کی سودے بازی کی حیثیت مزید مستحکم ہوگئی جب چیف کو “فیس سیونگ” کے لیے بلاول کو فون کرنا پڑا
5: اس معاملے کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں مگر پھر ایک اور “چول” مارنے کا الزام ان کے نامہ اعمال میں درج ہوگیا.
6: موجودہ احتجاجی ماحول میں یہ گول، پی ڈی ایم کے حق میں گیا. نواز شریف بیانیے کو مزید شہ ملے گی.
وفاقی حکومت کا کوئی بھی سندھ حکومت کے خلاف اقدام بہت بڑا بلنڈر ہوگا. اس معاملے کو ایک ہی طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے کہ “وردی کو عزت دو” پر اتفاق ہوجائے اور کسی بھی ایک ادارے کو “لائسنس ٹو کل” دینے پر کچھ لکیریں درست کر لی جائیں. یہ نہ کیا گیا تو cannibalism کا دور دورہ ہوگا جس میں دانت اپنے ہی جسم کو کھانے لگ جاتے ہیں. امید ہے معاملات وہاں تک نہیں پہنچیں گے. میرے خیال میں زیادتی کرنے پر کچھ لوگ اپنی نوکریوں سے جائیں گے، کچھ سیک ہوں گے، کچھ کے چاند ستارے اتریں گے، اور باقی پرانی تنخواہ اور نئی ارینجنمٹ پر کام جاری رکھیں گے!
پس نوشت : جنرل باجوہ کا بلاول بھٹو زرداری اور مشتاق مہر کو فون لیڈرشپ اور بردباری کا مظہر تھا. سندھ پولیس نے بھی دس دن کی تحقیقات پر متفق ہو کر بحران ٹال دیا. گڈ برنک مین شپ. یہ الگ بات کہ اس بحران کے دوران، ملک کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیر اعظم کی غیر موجودگی اور چیف آف آرمی اسٹاف کی موجودگی، کئی سوالات کو جنم دے گئی ہے۔