پیارے بچوں!
آج آپ کے لئے ایک بڑی مشہور سنی ہوئی کہانی سنوانا چاہ رہا ہوں ، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں آپ کے لئے بہترین سبق ہے۔
ایک تھا جادوگر۔وہ دشوارگزار پہاڑیوں اور گھنے جنگلوں میں رہا کر تا تھا۔اُس نے ہزاروں بھیڑیں پال رکھی تھیں۔لیکن مشکل یہ تھی کہ تمام بھیڑیں جادوگر سے خوفزدہ رہا کر تی تھیں ۔ کیونکہ وہ ہر روز مشاہدہ کر تی تھیں کہ اُن میں سے ایک ناشتے کیلئے کاٹ لی جا تی ہے اور دوسری دوپہر کے کھانے کیلئے چھری تلے آجا تی ہے ۔ اسی لئے آہستہ آہستہ وہ جا دوگر کے ہاں سے فرار ہونے لگیں تاکہ وہ اپنی جان کو بچا سکیں۔
قرب وجودار میں پھیلے وسیع وعریض جنگل اور پہاڑی سلسلے میں فرا رہوجانے والی بھیڑوں کی تلاش انتہائی مشکل اور جان لیواعمل تھا۔ بھیڑوں کا مالک چونکہ جادوگر تھا لہذا اُس نے جادو کا استعمال کیا۔ اُس نے تمام بھیڑوں کو ورغلایا اور ہر بھیڑ کے کان میں کچھ نہ کچھ پڑھ کر پھونک دیا ۔ کچھ بھیڑوں کو اُ س نے کہا کہ تم تو انسان ہو۔ تمہیں مجھ سے خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے ۔ کھانے کیلئے تو صرف بھیڑ ہی کاٹی جائے گی ، تمہیں اس سے کیا غرض؟ کیونکہ تم تو میری طرح انسان ہو۔ کچھ اور بھیڑوں سے اُ س نے کہا کہ تم تو شیرہو۔ بھیڑیں تو ڈرا ہی کر تی ہیں‘ڈرپوک ہوتی ہیں ‘بھاگ بھی جا تی ہیں۔ لیکن تم تو شیر ہو‘تمہیں تو فرار ہونے کی بجائے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر نی چاہیے۔ کیونکہ شیرہونے کی باعث یہی رویہ اختیار کرنا تمہاری بہادری اور قوت کا تقاضاہے۔ بھیڑوں کے طبقے سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا اُ ن کا کٹ مرنا تمہارا مسئلہ نہیں ۔وہ تو بنائی ہی اس لئے گئی ہیں کہ انہیں مارا جائے۔ لیکن تم تو اس جنگل میں میرے بہترین دوستوں میں سے ہو۔
پیارے بچوں!یوں اُ س نے تمام بھیڑوں کو مطمئن کر دیا۔اگلے ہی دن سے بھیڑوں کے فرار ہونے کا سلسلہ بند ہوگیا۔ وہ اب بھی پہلے ہی کی طرح ہرروز کسی نہ کسی بھیڑ کو چھری تلے گردن کٹواتے دیکھتیں لیکن اب انہیں اس عمل پر کوئی تشویش نہیں ہوتی تھی ۔ کوئی شیرتھی، کوئی ببر شیر تھی، کوئی انسان تھی۔۔۔۔۔۔اُن میں کوئی بھیڑ تو تھی ہی نہیں ، سوائے اُس کے جو ہر روز مر جاتی تھی۔ جو ماری جاتی تھی صرف وہ ہی بھیڑ ہوتی تھی۔
پیارے بچوں!اس طرح وہ جادو گر بغیرکسی کو ملازم رکھے ہزاروں بھیڑوں کو قابو میں رکھتا تھا ۔ وہ بھوک مٹانے اور گھومنے پھرنے جنگلی چراگاہوں کو جاتیں اور یہی اعتماد دل میں لئے واپس آجاتیں کہ ’’وہ کوئی اور بھیڑہوگی جو تیز دھار چھری تلے دم توڑ دے گی۔ہم نہیں ۔ ہم اس ہجوم کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم تو مطمئن ہیں‘عزت اور احترام یافتہ ہیں اور اس عظیم جادوگر کی دوست‘‘۔ یوں اُس جادوگر کی تمام مشکلات حل ہوگئیں۔
پیارے بچوں !اس کہانی سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ کسی پر اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہیے کہ وہ آپ کو اپنی باتوں میں لگا کر اپنے فائدہ حاصل کرے۔آپ کو اپنے دماغ سے بھی کچھ سوچنا چاہیے تاکہ آپ کسی بھی نقصان سے بچ سکیں ورنہ آپ لوگوں کی باتوں میں آکر خود کو ہی نقصان میں ڈال دیں گے۔