عربی مقولہ ہے
“الادب شجر والعلم ثمر ثم فکیف یجدون الثمر بدون الشجر”
ادب درخت ہے اور علم پھل ہے پھر بغیر درخت کے کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔درخت اور پھل کا رشتہ جس قدر اہم ہے اسی قدر اہم استاد اور شاگرد کا رشتہ ہے۔ استاد کا درجے کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ خود نبی کریم ﷺنے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا
” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے “(ابن ماجہ)۔اس کائنات کے پہلے معلم خود اللہ سبحانہ تعالی ہیں قرآن پاک میں ارشاد ہے
“اور آدم ؑ کو اللہ نے سب چیزوں کے نام کا علم عطاء کیا۔(البقرہ۔)
۔اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ اس کی تعلیم کا بھی انتظام فرمایا
” رحمٰن ہی نے قراٰن کی تعلیم دی،اس نے انسان کو پیدا کیااس کو گویائی سکھائی”(الرحمٰن)
اس دنیا میں آخری شریعت کے سلسلے کی پہلی وحی میں پڑھنے کا حکم آیا اور ساتھ ہی قلم کی قسم کھائی اور قلم کی اہمیت کہ اس کے ذریعے انسان کو تعلیم دی
“پڑھیے اپنے رب کے نام سے ۔۔۔۔۔۔پڑھیے اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا”۔(العلق)
اللہ نے اس زمین پر انسان کو صرف بھیج نہیں دیا بلکہ انبیاء کے ذریعے سے انسانوں کی ہدایت کا بھی انتظام کیا۔ انبیاء کرام نے جسمانی اور روحانی بالیدگی کا انتظام کیا۔ حضرت آدم ؑ زراعت، صنعت وحرفت کے معلّم اوّل تھے۔ لکھنے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریس ؑ نے ایجاد کیا۔ حضرت نوح ؑ نے لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا اور کشتی نوح جیسی عظیم نشانی آج بھی دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے علم مناظرہ اور حضرت یوسف ؑ نے علم تعبیر الرؤیا کی بنیاد ڈالی۔خاتم الانبیاء ﷺنے معلّم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سیکھائے۔(بخاری ۔5027)
صحابہ کرام نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے تعلیم حاصل کی ہر چیز کا علم دیا۔وہ دارارقم ہو یا صفہ کا چبوترہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کو زندگی کے ہر ہر گوشے کی رہنمائی فرماتے ۔ کفار نے استھزاء اڑایا کہ تمہارے رسول تو تمہیں استنجے کے مسائل بھی بتاتے ہیں۔ بلکہ آپﷺ کا امت پر یہ احسان ہے کہ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس پر آپ ﷺ نے رہنمائی نہ فرمائی ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی ایسی بہترین تربیت فرمائی کہ دنیا میں ایسے بہترین لوگ کسی معاشرے میں ملنا نا ممکن ہے۔ خود صحابہ کرام کا آپ ﷺ کی مجلس میں ادب کا یہ عالم ہوتا تھا کہ صحابہ کرامؓ چہرہ انورﷺ کی طرف سیدھا نہیں دیکھتے تھے۔ بہت سے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرنے سے قاصر رہے کیونکہ کبھی انہوں نے نظر بھر کر چہرہ انورﷺ کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ بیٹھنے کا انداز ایسا مؤدبانہ ہوتا تھا کہ پرندے آ کرصحابہ کے سروں پر بیٹھ جاتے تھے۔
معلم اور علم کی اہمیت کے لئے یہ حدیث مبارکہ بہت اہم ہے۔ سیدنا عبداللہؓ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ اپنے کسی حجرہ سے مسجد میں آئے،آپ ﷺ نے دیکھا کہ دو حلقے ہیں ایک قرآن کی تلاوت کر رہا ہے اور اذکار میں مشغول ہیں اور دوسرا حلقہ علم سیکھنے سکھانے میں مشغول ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’دونوں بھلائی پر ہیں‘ یہ قرآن پڑھ رہے ہیں اور اللہ سے مانگ رہے ہیں، اللہ چاہیں تو ان کو عطا فرمائیں اور چاہیں تو نہ دیں اور یہ علم دین سیکھ اور سکھا رہے ہیں اور مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ چنانچہ آپ ﷺ حلقہ علم میں تشریف فرما ہوئے۔‘‘(ابن ماجہ)
رسول اللہ ﷺ نے معلم کا رتبہ بلند کیا اور اسے انبیاء کرام کا وارث قرار دیا
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا
’ علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بہتر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل پرہیزگاری ہے، جو شخص کسی راستے پر علم کی تلاش میں نکلتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کی وجہ سے اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرمادیتا ہے، بے شک فرشتے طالب علم سے خوش ہو کر اس کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں ، عالمِ دین کے لئے زمین وآسمان والے یہا ں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں ، عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو دیگر ستاروں پرہے، علماء کرام رَحِمَہُمُ اللہ تَعَالٰی انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے وارث ہیں ، انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام درہم ودینارکا وارث نہیں بناتے بلکہ وہ توعلم کا وارث بناتے ہیں ، لہٰذا جس نے علم حاصل کیا اس نے پورا حصہ پا لیا۔ ‘‘ (ترمذی)
تعلیم و تعلم کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگا سکتے کہ آپﷺ نے فرمایا
جو آدمی گھر سے علم حاصل کرنے کے لیے نکلا تو وہ جب تک (گھر) واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں ہے۔‘‘(ترمذی‘ دارمی)
جب اسیران بدر کا معاملہ پیش آیا تو ان میں جو پڑھے لکھے مگر نادار تھے ان کا فدیہ دس دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانا طے پایا تھا۔ یاد رہے وہ مشرک تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے تعلیم کا حصول کتنا اہم تھا۔
سیدنا حسنؓ سے روایت ہے کہ
’’نبی کریمؐ سے دو آدمیوں کے متعلق پوچھا گیا وہ دونوں بنی اسرائیل میں سے ہیں‘ ان میں ایک عالم تھا جو فرض نماز پڑھتا اور پھر لوگوں کو علم سکھانے کیلئے بیٹھ جاتا اور دوسرا دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا ، ان میں سے افضل کون ہے ؟ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اس عالم کی فضیلت جو فرض نماز پڑھتا ہے اور پھر لوگوں کو علم سکھانے کے لیے بیٹھ جاتا ہے اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو قیام کرتا ہے‘ اس قدر ہے جیسے مجھے تمہارے ایک ادنیٰ پر فضیلت حاصل ہے۔‘‘
سیدنا علیؓ جنہیں رسول ﷺ نے بابِ علم کہا‘ استاد اور علم کی اہمیت بارے آپ کا فرمان ہے:
’’اس شخص کو کبھی موت نہیں آتی جو علم کو زندگی بخشتا ہے۔‘
حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ
“جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔
حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ
” ہم استاد سے اتنا ڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں “
۔حضرت یحییٰ بن معین ؒ بہت بڑے محدث تھے امام بخاریؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترام وہ کرتے تھے اتنا احترام کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ابو یوسف ؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ اساتذہ کے سامنے تواضع اور انکساری کا اظہار کرتے تھے، علم حدیث کے لیے ان کے گھروں کی دہلیز پر بیٹھ جاتے اور استاد کے نکلنے کا انتظار کرتے رہتے ،ہوا سے چہرے پر گرد اور مٹی پڑتی رہتی تھی ، مگر در نہ چھوڑتے نہ آواز دیتے۔ جب وہ حضرات اپنے کام سے باہر نکلتے تو آپ کو منتظر اور طالب علم پاتے اورآپ استاد کے سامنے یوں گویا ہوتے کہ میں علم کا طالب ہوں، میرادل نہ چاہا کہ آپ میری وجہ سے اپنی ضروریات سے فارغ ہونے سے پہلے آئیں۔
امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استادکے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔ حالانکہ ان کے گھر کے بیچ سات گلیوں کا فاصلہ تھا۔ان کا معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد اپنے استاد اور والد کے لئے دعا مغفرت کرتے۔وہ فرماتے کہ میں ہر اس شخص کے لئے دعا کرتا ہوں جس سے میں نے کچھ بھی سیکھا۔
حلیفہ ہارون رشید کے دو بیٹے امام نسائی کے پاس تعلیم حاصل کرتے تھے ایک بار دونوں شہزادے اس استاد کے جوتے ٹھیک کرنے پر تکرار ہوئی اور پھر دونوں نے ایک ایک جوتا استاد کو پیش کیا خلیفہ کو علم ہوا تو کہا کہ
سب سے عزت و احترام والا وہ استاد ہے کہ جس کے جوتے ٹھیک کرنے کو شہزادے اپنا اعزاز سمجھیں۔
ہارون الرشید نے جب امام مالک سے حدیث کا علم سکھانے کی درخواست کی تو امام مالک نے کہا کہ علم کی یہ شان نہیں کہ وہ خود چل کر آئے اگر علم سیکھنا ہے تو میرے حلقہ درس میں خود آئیں۔ ہارون الرشید حلقہ درس حاضر ہوئے تو دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے امام مالک نے ڈانٹ دیا، وہ فورا باادب کھڑے ہو گئے۔
یہ محض ہمارے اسلاف کے قصے نہیں ہیں بلکہ علم اور معلم کے لئے ان کی محبت اور احترام ہے۔ وہی قومیں دنیا میں ترقی کرتی ہیں جو استاد کا احترام کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے والدین ہمیں اس دنیا میں لاتے ہیں اور استاد ہمیں اس دنیا میں رہنے کے ڈھنگ سکھاتا ہے۔ استاد اس درخت کی مانند ہے جس سے سایہ اور پھل دونوں حاصل ہوتے ہیں اور مسافر اگلی منزل کی طرف بڑھ جاتے ہیں اور وہ وہیں اپنی جگہ کھڑا چھاوں اور ثمر بانٹتا رہتا ہے۔ استاد کو مجازی والدین کا درجہ بھی حاصل ہے۔ اس لئے ان کی عزت اور قدر کرنا لازم ہے۔ ترقی یافتہ قوموں میں استاد کو مقام و مرتبہ دیا جاتا ہے۔
اشفاق احمد اپنا ایک واقعہ لکھتے ہیں
برطانیہ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مجھ پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ میں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کرسکا تو مجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا۔ کمرہ عدالت میں جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کیا تو میں نے کہا کہ میں ایک پروفیسر ہوں اکثر مصروف رہتا ہوں ۔ اس لئے میں چالان جمع نہیں کرسکا۔ تو جج نے کہا The Teacher is in the court اور پھر جج سمیت سارے لوگ احترماً کھڑے ہوگئے۔
اسی دن میں اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا‘