گھر داری 

اسلام پسند طبقہ عورت کو گھرداری میں بہترین ہونے اور نوکری کے لیے گھر سے نہ نکلنے پر زور دیتا ہے۔ لیکن ہم ہمیشہ اپنے سوچوں کے دھارے میں اعتدال اور توازن کو برقرار رکھنے میں نا کام ہو جاتے ہیں۔ بلاشبہ انسان کی سوچیں ہی اس کے لیے اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ انسان کا ہر عمل اور اس کی نیت اس سوچ کی محتاج ہوتی ہے جو کہ اس کے ذہن میں پنپ رہی ہو۔

گھرداری عورت کی اولین ذمہ داری ہے۔ لیکن ہم اپنی اس سوچ میں بھی متشدد نظریات رکھتے ہیں۔ جس سے توازن بگڑتا ہے۔ اور یہ تعین کرنے میں مشکل ہوتی ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ ہمارے نزدیک گھرداری میں سب سے اہم کام کھانا پکانے کا ہے اور کھانے بھی پر تکلف ہوں۔ بہت سارے گھروں میں دو چار کھانوں کے بغیر کھانے کا تصور نہیں کیا جاتا۔ جب کہ اسلام میں سب سے اہم کام عورت پر جو ڈالا گیا ہے وہ اپنے بچوں کی تربیت اور ذہن سازی ہے۔ خواتین اپنے گھر والوں کو سادہ سے دال چاول کھلاتی ہیں یا بے حد پر تکلف کھانے بنا کر دیتی ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن ان کے بچے اس فیض سے محروم رہے جسے حاصل کرنے کے لیے اللّٰہ رب العالمین نے انسان کو اس دنیا میں بھیجا ہے تو ان کی گھرداری روز محشر ان کے کسی کام نہ آسکے گی۔ کیونکہ اس دنیا میں اللّٰہ کے نزدیک وہی عمل بڑا ہے جس کی پاکیزہ روح اور اعلیٰ نیت کے ساتھ کیا جائے۔

ہمارے سامنے حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی مثال موجود ہیں۔ جن کے گھر میں پکانے کے لیے آٹا نہیں موجود ہوتا تھا۔ لیکن انھوں نے وہ اولاد پروان چڑھائی اور ان کی ایسی تربیت کی کہ حضرت حسین کربلا میں شہید ہوتے ہیں تو اسلام کو زندہ کر جاتے ہیں۔ ان کی صاحبزادی حضرت زینب یزید کے دربار میں تقریر کرتی ہیں تو کوفہ والوں کو اپنی غلطی کا احساس دلوا دیتی ہیں۔

پاکستان کا خواب دیکھنے والے حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ جو اپنی والدہ کی بہترین تربیت کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ جن کے بارے میں خود اقبال فرماتے ہیں کہ

 

تربیت سے تیری مَیں انجم کا ہم قسمت ہُوا

گھر مِرے اجداد کا سرمایۂ عزّت ہُوا

مختصراً اگر تربیت اولاد کے ساتھ ساتھ اور گھرداری کے دوسرے کاموں کو مناسب انداز میں سادگی سے سمیٹ کر اگر خاتون خانہ معاشرے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو وقف کرتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی ان صلاحیتوں سے نہ صرف اس کی اہل خانہ بلکہ معاشرے کے دیگر افراد بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ اس وقت اس کو ایسی افرادی قوت کی ضرورت ہے جو کہ اس قوم کی خدمت کر سکے۔ اس زیر تعمیر ریاست میں خواتین کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق ضرور حصہ ڈالنا چاہیے۔میرا یہ خیال ہے کہ اگر ایک عورت اپنی گھرداری میں سادگی کو اختیار کرے، گھر سے نکلے اور قوم کی خدمت  اور اسلام کے اس قلعے کو مضبوط بنانے میں اپنا بھی حصہ ڈالے تو یہ کام اللّٰہ کے نزدیک زیادہ معتبر ہے۔ بجائے یہ کہ عورت گھر کے کاموں کو کرتا ہوا اپنی زندگی کے ایام پورے کر لے۔