ایک فقیرسبزی فروش کی دکان پر گیا اورکہاــ’’اللہ‘‘ کے نام پر ایک آم دے دو۔دکاندار نے ایک گلا سڑا خراب آم فقیر کو دے دیا۔اُس پر فقیر نے بیس روپے دکاندار کو دیئے کے انکے آم دے دو۔تو دکاندار نے اُس کو دو اچھے اور بہترین آم دیئے۔فقیر نے آسمان کی طرف دیکھا اورکہا’’اے اللہ تو گواہ رہنا‘‘، دیکھ تیرے بندے نے تجھے کیا دیا ؟ اور مجھے کیا دیا؟
پیارے بچوں!ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ ایسا ہم میں سے کتنے لوگ کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے اس حوالے سے کبھی سوچا ہے کہ ہم اس بابت اللہ کو جواب دہ ہونگے۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے ہم راہ خدا میں اکثر و بیشتر پرانی اشیا،بے کار کپڑے دیتے ہیں یا پھر دکھاوے کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔
اپنے نام کو روشن کرنے کیلئے لوگوں کی امداد یوں کرواتے ہیں کہ اخبارات میں تصویریں شائع کروا کے بطور نشانی اپنے ڈرائنگ رومز کی زینت بناتے ہیں ۔جب کہ ہم جس کیلئے یہ سب کر رہے ہوتے ہیں۔وہ قادر مطلق ہماری شہ رگ سے قریب تر ہے وہ سب جاننے والا ہے ؟
مگر پھر بھی پتا نہیں کیوں ایسا کر کے خوش فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہم تو اللہ کی راہ میں بڑا خرچ کرنے والے ہیں؟ہم سے اکثر تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ڈرتے ہیں جب کہ ہمیں وہی ذات ہی عطا کرنے والی ہے۔
پیارے بچوں!
اللہ کے نام پر نہ دینے والوں کی بڑی مثال تو یہ ہے کہ ہر سال جب بھی ذکوۃبنکوں سے کاٹی جانے لگتی ہے تو لوگ فوراَ ہی اپنی رقوم نکال لیتے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے کہ ذکوۃ درست جگہ استعمال کاٹے جانے کے بعد استعمال نہیں ہوگی۔مگر ہمیں تو اچھی نیت سے نیک کام کرنے چاہیے نا؟
پیارے بچوں! اگر اللہ کے حکم سے روگردانی کرنے کی کوشش کی جائے گی تو باقی کیا رہ جائے گا؟ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ کے نام پر بڑھ چڑھ کر خرچ کریں جتنا ہم دیں گے اس سے بڑھ کر ہمیں وہ ذات عطا کرے گی ۔ہمیں اس حوالے سے اپنی سوچ کو مثبت کرنا ہوگی کہ اللہ کے نام پر عمدہ چیزیں اور اعمال سرانجا م دیں تاکہ روزمحشر ہم اللہ تعالی کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور حضورﷺ کی بھی شفاعت حاصل ہو سکے۔
پیارے بچوں! اس لئے آج سے آپ خود بھی اور اپنے والدین کو بھی اس حوالے سے آگاہ کریں کہ وہ اچھی چیزیں اللہ کے نام پر دیں تاکہ اللہ کی خوشنودی کے ساتھ لوگوں کا بھی بھلا ہو سکے۔