اس سے پیشتر کہ آپ اگلی سطریں پڑھیں، یہ بتائیں کہ آپ کے خیال میں ٹام کروز، ال پاچینو یا سلمان خان کا قد کتنا ہوگا؟ اگر آپ کا بھی یہی خیال ہے کہ لوگوں کے بارے میں سوچتے یا رائے قائم کرتے وقت آپ ان کی ذہانت، فطانت، بلاغت، فصاحت پر نظر دوڑاتے ہوئے میرٹ پر ان کے بارے میں فیصلہ قائم کرتے ہیں تو پھر آپ یقیناً کچھ مزے مزے کے انکشافات کے لیے تیار رہیں.
ماہرین نفسیات اس موضوع پر سینکڑوں تحقیقات کر چکے ہیں، نتائج گھوم پھر کر وہی آتے ہیں. وہ تین مردوں یا عورتوں کی تصویریں استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو کہتے ہیں کہ ان کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کریں کہ یہ کتنے ذہین، فطین، بردبار، وقت کے پابند، ہنس مکھ، وغیرہ وغیرہ ہیں. تین میں سے ایک “خوبصورت”، ایک “ایوریج” اور ایک “ماٹھا” ہوتا یا ہوتی ہے. آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ نتیجہ کیا نکلتا ہوگا؟
تقریباً پوری دنیا میں ہونے والی مختلف ریسرچوں میں سب سے خوبصورت مرد اور عورت کو سب سے زیادہ مثبت ریٹنگ ملتی ہے. وہ ذہین بھی زیادہ، معاملہ فہم بھی، سگھڑ بھی، انسانی جذبات سے زیادہ بھرپور بھی ہوتے ہیں اور ان میں لیڈرشپ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی ہوتے ہیں. بدقسمتی سے ماٹھے مرد اور عورت میں انہی تمام خصوصیات کی شدید قلت ہائی جاتی ہے.
اب آتے ہیں ٹام کروز، آل پاچینو اور سلمان خان پر. شاید آپ کو جان کر حیرت ہو کہ یہ تینوں 5 فٹ 7-8 انچ لمبے ہیں. عامر خان کا قد تو اور بھی چھوٹا ہے. آپ نے ان کی بہت سی فلمیں دیکھ رکھی ہوں گی مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ کو فلم دیکھتے ہوئے احساس نہیں ہوا ہوگا کیونکہ ان کی فلموں کی ریکارڈنگ کرتے وقت فلمساز کو”وختہ” پڑا ہوتا ہے، ایسے زاویے اور پوزیشنیں استعمال کی جاتی ہیں کہ پبلک کو معلوم نہ ہو کہ ان کا ہیرو چھوٹے قد کا ہے. ہالی ووڈ میں تو “ایپل بکس” استعمال کیا جاتا ہے جسے ہیرو کے نیچے رکھ کر اسے دوسروں سے طویل القامت دکھائی دیا جاسکے.
سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ وجہ یہ ہے کہ لاکھوں سال کے ارتقائی سفر میں انسانی دماغ نے کچھ تصورات ایسے قبول کیے ہیں جوکہ ہمارے اجتماعی لاشعور کا حصہ بن چکے ہیں. خوبصورتی اور قیادت کے حوالے سے یہ ہماری ججمنٹ کو متاثر کرتے رہتے ہیں. مثال کے طور پر عرض یے کہ ایک امریکی تحقیق کے مطابق 6 فٹ سے اوپر ہر انچ 1ہزار ڈالر سے زیادہ سالانہ آمدنی میں اضافہ کردیتا ہے. ایک اور دلچسپ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آج تک ٪80 امریکی صدور 6 فٹ سے یا اوسط قد سے زیادہ قامت کے تھے.
نامور امریکی ماہر نفسیات تھارن ڈائک نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ایک بہت دلچسپ چیز پکڑی. یہ نفسیات کے ارتقاء کا زمانہ تھا اور فوجی بھرتی اور ترقی میں نفسیاتی داؤ پیچ استعمال کیے جارہے تھے. اس نے دیکھا کہ ہوابازوں کی جانچ پڑتال کرتے وقت ایک ہی ٹرینڈ چلتا جارہا ہے کہ اگر ہواباز جہاز اڑانے میں طاق ہے تو اس کو لیڈرشپ، ڈسپلن، کارگزاری اور باقی دس اور خصوصیات میں بھی بھرپور نمبر دیے گئے ہیں ہوابازی کا لیڈرشپ کے ساتھ کوئی خاص واسطہ نہیں بنتا.
اس نے فوجی افسران کی جانچ پرکھ میں بھی یہی ٹرینڈ دیکھا کہ اگر کسی دو خصوصیات میں افسر اچھا ہے تو پھر اگلی بیس میں بھی اسی طرح بہترین ہے اور اگر کوئی دو چیزوں میں برا ہے تو مزید پندرہ اور چیزوں میں بھی بہت برا ہے. تھارن ڈائک نے مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ انسانی نفسیات کے آٹو پائلٹ موڈ کا حصہ ہے. اگر کسی کو پسند کرلیا تو پھر اس کا سب کچھ پسند کرلیا اور اگر کوئی ناپسند آگیا تو پھر بالکل ہی اس ہر کانٹا لگایا. اس خاص تاثر کو HALO EFFECT کا نام دیا گیا. کہ لیجیے کہ یہ اردو والا “نورانی ہالہ” ہے جسے ہم اپنے ممدوح یا محبوب کے گرد طاری کرلیتے ہیں اور پھر اسی نورانی ہالے کی روشنی میں اس کی باقی خوبیاں ہم پر عیاں ہوجاتی ہیں.
ہمارے بزرگ بھی کچھ ایسے ہی گزرے ہیں. مشہور فارسی شاعر حافظ نے تو کہ ڈالا تھا کہ ہم نے اپنے محبوب کے تل کے بدلے سمرقند اور بخارا کے شہر اسے بخش دیے ہیں. جب تیمور نے اپنے دربار میں اسے ڈانٹا کہ تم شہر بخشنے والے اتنے غریب کیوں ہو تو اس نے کمال جواب دیا کہ اسی سخاوت نے اس حال تک پہنچا دیا ہے.
ہم پاکستانی، اس معاملے میں باقی قوموں سے بڑھ کر حسن پرست واقع ہوئے ہیں. گورا رنگ اور لمبا قد “لائسنس ٹو کل” کا درجہ رکھتا ہے. بچپن سے کسی بہت ہی جان لیوا شخصیت کی تعریف یہی سنی کہ وہ تو “انگریز” لگتا ہے. کالج، یونیورسٹی سے لے کر سول سروسز میں یہی دیکھا کہ خوبصورتی اور “خوش خطی” کے نمبر الگ ہیں اور بعض اوقات پورے نمبروں پر بھاری ہیں. میں نے تو یہ جملہ بھی کئی دفعہ سنا “ہاں یار وہی ڈی سی جو چپڑاسی کی شکل والا ہے” یا پھر “ایس پی سے مل تو آیا ہوں مگر اس کی شکل ایس پی والی نہیں ہے”.
پاکستانی سیاست میں ہالہ ہر طرف حاوی ہے. ہماری سیاسی زندگی کے مقبول ترین کرداروں ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کی مقبولیت میں اہم ترین کردار ان کے گورے رنگ، لمبے قد، انگریزی پر مہارت اور سٹائلش ہونے کی وجہ سے ہے. بہت مدبر بزرگوں کو ایوب خان کے مارشل لاء کی تعریف کرتے ہوئے سنا کہ “صدر ایوب دنیا کا سب طویل القامت اور وجہیہ صدر تھا، دیکھا جیکولین کینیڈی کے ساتھ کیسا لگ رہا تھا”. نواز شریف کو بھی گوری رنگت نے بہت فائدہ دیا البتہ بہت اے جرنیلوں اور سیکرٹریوں سے ان کی انگریزی نہ بول سکنے کام شکوہ سنا. عمران خان کی شروع میں مقبولیت کا سب سے بڑا سبب” گوروں کی طرح شکل “اور گوریوں” کا مر مٹنا تھانہ جو کہ پاکستانی حساب سے مقبولیت کی معراج کہا جاسکتا تھا. نورانی ہالے کی یہی ملتی جلتی نفسیاتی کیفیت ہماری” وردی “کے حوالے سے بھی ہے.
اب نورانی ہالہ اثر کیسے کرتا ہے؟ ایک تو یہ ہے کہ خوبصورتی کی وجہ سے ایسے افراد میں لوگوں کو وہ خصوصیات دکھائی دینے لگتی ہیں جو ان میں ہرگز موجود نہیں ہوتیں. مثال کے طور پر گورے رنگ کا محنتی ہونے ، ذہین ہونے، ہمدرد ہونے، اچھا قائد ہونے، سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، مگر خوبصورت افراد کو اس ضمن میں تمام فاضل نمبر دے یے جاتے ہیں. یہی نہیں بلکہ خوبصورت لوگ جب کوئی “چول” ماردیں، بدتمیزی کردیں، خلاف تحقیق بات کردیں، جھوٹ بول دیں، دھوکہ دے دیں تو اس کو بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا کہ “سوہنے” تو ہوتے ہی ایسے ہیں. ہماری نفسیات میں فوک وذڈم سے لے کر محاورات اور شاعری میں بھی “سوہنیوں” کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے.
15 سال پہلے میں نے خود ایک تحقیق کی تھی جس میں اداکارہ میرا کو زبردست انگریزی، جرمن اور سپینش بولتے دکھائی دیا تھا اور ٪90 افراد نے بغیر کسی سوال جواب کے مان لیا تھا کہ “چونکہ میرا ایک حسین اداکارہ ہے سو وہ یہ ساری زبانیں شاندار طریقے سے بول سکتی ہے”. یہی نہیں بلکہ ایک اور بہت بڑا سائیڈ ایفیکٹ یہ ہے کہ خوبصورت لوگ، واقعی سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ وہ واقعی اتنے ہی ذہین، فطین اور عقلمند ہیں جتنا کہ لوگ انہیں سمجھتے ہیں. مثال کے طور میرا کو انگریزی بولتے دیکھ لیں، نواز شریف کو انقلاب پر یا عمران خان کو تاریخ یا اقتصادیات پر گفتگو کرتے دیکھ لیں.
اسی طرح رئیس لوگ یا کروڑ پتی اور ارب پتی ایک نورانی ہالہ رکھتے ہیں کیونکہ انسانی نفسیات میں شامل ہے کہ صاحب امارت لوگ کافی کرشمہ ساز ہوتے ہیں. پاکستان میں یہ نورانی ہالہ ارب پتیوں کے علاوہ بیوروکریٹس (فوجی اور سویلین) دونوں کے ارد گرد پایا جاتا ہے اور ان کی ایک نوکری ڈھونڈنے کی خوبی کی وجہ سے لوگ ان کے اندر باقی بے شمار خصائل بھی ڈھونڈ لیتے ہیں.
اشفاق احمد صاحب کا ایک جملہ بہت مقبول ہوا تھا کہ پاکستان کو ان پڑھ لوگوں نے نہیں، پڑھے لکھوں نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے. میں اس میں تھوڑی سی تحریف کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ پاکستان کو زیادہ نقصان کوجھے لوگوں نے نہیں، “خوبصورت لوگوں” نے پہنچایا ہے.
مشہور مزاح نگار شفیق الرحمان کہتے ہیں کہ مصیبت اس وقت جنم لیتی ہے جب لڑکے کسی خوبصورت لڑکی کی قاتلانہ مسکراہٹ، یا خوبصورت آنکھوں کی وجہ سے سالم لڑکی سے شادی کرلیتے ہیں. یہی صورت حال سیاست میں بھی نظر آتی ہے جب کسی کے “پپو” یا دیانت دار ہونے کی وجہ سے اسے وزارت عظمیٰ کے قابل سمجھ لیا جائے.
یہ نورانی ہالہ ہی محبت کی شادیوں میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ بن جاتا ہے جب کسی کی کوئی خاص بات یا ادا پسند آجاتی ہے اور اس کو باقی مضامین میں بھی فل بٹا فل نمبر دے دیے جاتے ہیں اور یہ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ میچ دیکھنے والے کے اپنے دماغ نے فکس کردیا تھا.
اس ساری گفتگو کا عرق یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں دخیل لوگوں اور شخصیات کے بارے میں سوچتے ہوئے “کمبل اسٹیٹمنٹ” دینے سے گریز کریں. میرٹ پر اسی وقت رائے قائم کی جاسکتی ہے جب ہم فعل کو شخصیت سے الگ کردیں، ورنہ کچھ لوگوں کو سات خون معاف کرتے رہیں گے اور کچھ کو گھنٹا گھر میں پھانسی دیتے رہیں گے۔