مال و دولت سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ

یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون موسیٰ ؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سر کش ہو گیا۔ اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقتور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی۔ ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا ” پھُول نہ جا، اللہ پھُولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر ، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔“ تو اُس نے کہا: ”یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے“۔۔۔۔کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پُوچھے جاتے۔

ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے پُورے ٹھاٹھ میں نِکلا۔ جو لوگ حیاتِ دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے: ” کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ تو بڑا نصیبے والا ہے۔“ مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے” افسوس تمہارے حال پر ، اللہ کا ثواب بہتر ہے اُس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو۔“

آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دَھنسا دیا۔ پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد و آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کر سکا۔ اب وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے: ”افسوس، ہم بھُول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا تُلا دیتا ہے۔ اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دَھنسا دیتا۔ افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے۔“ (القصص: 76 تا 82)

تشریح: یہاں کچھ چیزیں سمجھنے کی ہیں۔

اوّل: مال و دولت محض اللہ کی دَین ہوتی ہے نہ کہ انسان کا ذاتی کمال۔ یہ سمجھنا کہ یہ مجھے اپنے علم اور تجربہ کی بنیاد پر حاصل ہوا ہے، نری غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپاتلا دیتا ہے۔ آدمی کی پہلی بھول یہی ہے کہ وہ اللہ کی دَین کو اپنا کمال سمجھتا ہے۔

دوئم: مال و دولت ہدایت کی نشانی نہیں ہے کہ جسے مل جائے تو لازم ہے کہ وہ سیدھے راستےے پر ہو اور نہ ہی یہ اس چیز کا ثبوت ہے کہ جسے دولت مل گئی لازماََ اللہ اسے خوش و راضی ہے اسی لیے اسے نوازا گیا، ورنہ قارون سے بڑھ کر کون اللہ کا محبوب ہو سکتا تھا۔ اللہ کے نزدیک مال و دولت کی کوئی حیثیت نہیں، وہ تو بندوں کے ساتھ ان کے اعمال اور نیتوں کے لحاظ سے معاملہ کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی نوعیت کی ایک حدیث روایت کی ہے: عن أبي هريرة رضی الله عنہ- مرفوعاً: «إنَّ الله لا ينْظُرُ إِلى أجْسَامِكُمْ، ولا إِلى صُوَرِكمْ، وَلَكن ينْظُرُ إلى قُلُوبِكمْ وأعمالكم». اللہ، تمہارے جسموں اور چہروں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہار دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔(مسلم)

سوئم: دولت میں غریبوں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کا بھی حق ہے اس لیے انہیں ان کا حصہ دے دینا چاہیے۔ یہ دولتمندوں کا غریبوں پر احسان نہیں ہوتا بلکہ وہ حقداروں کو ان کا حق دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اللہ کے بندوں پر خرچ کرکے اترانا نہیں چاہیے نہ ہی احسان جتلانا چاہیے۔

چہارم: ظاہر بین محض ظاہری چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ جیسے آجکل ہر شخص یورپ کی مادی ترقی کی مثالیں دیتا نظر آتا ہے اور ایمان کی دولت کو کمتر جانتا ہے۔ جب کہ مادی ترقی ہی سب کچھ نہیں ہوتی، اصل دولت ایمان کی دولت ہے جس کا اجر غیب کا پردہ ہٹنے پر نظر آئے گا۔ قارون کو اپنے پورے لاؤ لشکر اور جاہ و جلال کے ساتھ دیکھ کر بہت سے لوگوں کے دل میں یہ حسرت پیدا ہوئی کہ کاش انہیں بھی یہ مقام ملا ہوتا مگر جب اس کا حشر دیکھا تو شکر کرنے لگے کہ اللہ نے انہیں بچا لیا۔ لہٰذا کسی کی مادی ترقی اور دولت دیکھ کر خود کو کم تر سمجھنا درست نہیں۔