یہ حیرت کی بات ہے نا کہ فرانسیسی صدرمیکرون عالمی سطح پر ’’بحران‘‘ سے دوچار اسلام کی جڑوں کو فرانس کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں لیکن انھیں ایک ایسی خاتون کا استقبال کرنے کے لیے ایئر پورٹ تک جانا پڑتا ہے جو ان کی جانب سے استقبال اور اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیتی ہیں!! اس خاتون کا نام سوفی پیٹرونین ہے اور اس وقت وہ پچھتر سال کی ہیں۔
سوفی پیٹرونین Sophie Petronin فرانس سے تعلق رکھنے والی آخری فرد ہیں جو ابھی تک یرغمال بنی ہوئی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ مغربی افریقہ کے ملک مالی کے ایک ’جہادی‘ گروپ نے انھیں چار سال قبل یرغمال بنا لیا تھا اور اب چار سال کے بعد پانچ اطالوی یرغمالوں کے ساتھ انھیں بھی رہا کیا گیا ہے۔ وہ ایک عرصے سے مالی کے ’گاو‘ میں مقیم تھیں اور ایک یتیم خانے اور رفاہی ادارے کی مدد سے نادار و یتیم بچوں کی امداد کا کام کیا کرتی تھیں۔
پچھتر برس کی بزرگ سوفی نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام ’مریم‘ رکھا ہے۔ قبول اسلام کا اعلان کرنے کے بعد انھوں نے کہا: ’’آپ لوگ مجھے سوفی کے نام سے پکارتے ہیں، لیکن آپ کے سامنے جو عورت کھڑی ہے وہ ’مریم‘ ہے۔
فرانس پہنچنے کے بعد اپنی چار سالہ یرغمال کی زندگی کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا گیا۔ انھوں نے اپنی قید کی زندگی کو ’’روحانی مراجعت‘‘ (SPRITUAL RETREAT) سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ہم سب اس زمین پر ایک نہ ایک آزمائش سے گزرتے رہتے ہیں۔ اگرآپ جو آزمائش آ رہی ہے اسے قبول کر لیں گے تو کچھ زیادہ برا نہیں ہوگا، لیکن اگر آپ مزاحمت کریں گے تو خود کو نقصان پہنچا لیں گے۔‘‘ یہ بات انھوں نے اپنے یرغمال بنائے جانے کے تناظر میں کہی ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے مالی واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ پہلے کی طرح انسانو ں کی خدمت کرتی رہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’میں مالی کے لیے خیر و برکت کی دعا کرتی ہوں، کیوں کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘
سوفی کے قبول اسلام نے ایک خاص طبقے میں ہلچل پیدا کردی ہے اور وہ مضطرب نظر آنے لگا ہے۔ یہ سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ لوگ تو دوسرے مذاہب بھی روز قبول کرتے ہیں لیکن اسلام میں صرف ایک شخص کا داخلہ بھی اسے اتنا باؤلا کیوں کر دیتا ہے؟