آج کل ہمارے ملک پاکستان میں ایک اصطلاح “لبرلزم”(آزاد خیالی) بہت عام ہو گئی ہے۔ گو کہ یہ اصطلاح نئی نہیں ہے لیکن جتنا چرچا اسکا آجکل ہے، اتنا پہلے کبھی نہ تھا۔ زیادہ تر لبرل(آزاد خیال) حلقے ہمارے ملک میں ہیں تو جدی پشتی مسلمان ہی، لیکن ہمہ وقت اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کیسے کیسے اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جائے اور مسلمانوں کو اسلامی اقدار سے دور کیا جائے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اسلام کے کسی بھی حکم کی کبھی بھی تعریف نہیں کرتا۔ حتٰی کہ غیر مسلم بشمول مغرب اور امریکہ کے لوگ، اسلام کو نہ مانتے ہوئے بھی کبھی کبھی کچھ اسلامی احکامات کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ہمارے ملک کے لبرل حلقے ایسا کبھی بھول کر بھی نہیں کرتے، بلکہ یہ لوگ خود کو فخر سے اعلانیہ لبرل تو کہتے ہیں لیکن خود کو اعلانیہ مسلمان شاذونادر ہی کہتے ہیں۔
ملک میں کہیں بھی دین کی بات ہو، ان لبرل حلقوں کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ یہ لوگ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی ان خرابیوں کو بھی اسلام سے جوڑ دیتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان خرابیوں سے ہمارا دین خود روک رہا ہوتا ہے۔
ان لبرل لوگوں کی حقیقی منزل سیکولرازم (لادینیت) ہے اسی لئے انھیں کوئی بھی مذہبی حکم پسند نہیں۔ اگر کوئی ان کو دین کی تعلیمات سے کوئی بات سمجھانے کی کوشش بھی کرے تو یہ اسے قدامت پسند قرار دے کر ایک طرف کر دیتے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کا یہ لبرل گروہ زیادہ تر یا تو ہے ہی اشرافیہ کے طبقے سے، یا پھر لبرل نظریات پر منتقل ہونے کے بعد امراء کی صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ اب اس غریب لبرل طبقہ کے پاس بھی سرمایہ اور وسائل کہاں سے آنا شروع ہو جاتے ہیں یہ ایک الگ سربستہ راز یا سوال ہے !
ملک کے طول و عرض میں پھیلی غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) میں سے غالب اکثریت کا ایجنڈا امداد کی آڑ میں لبرل نظریات بلکہ کھل کر بات کی جائے تو بے راہ روی کا فروغ ہی ہے۔ مثال کے طور پر یہ لبرل طبقہ 18 سال سے کم عمر میں شادی کی تو بھرپور مخالفت کرتا ہے لیکن کم عمری کے ناجائز جنسی تعلقات کو انسانی ضرورت اور حق سمجھتا ہے۔ اسی لئے ان لوگوں کا ہدف زیادہ تر نوجوان لڑکے، لڑکیاں ہی ہوتی ہیں کیونکہ جلدی شادیوں کے مخالف بھی سب سے زیادہ لبرل ہیں اور شادیاں نہ ہونے کی صورت میں جذبات کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو بے راہ روی کے سمندر میں دھکیلنا بھی یہی جائز سمجھتے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح سے منسوب صرف ایک تقریر ان لبرلز نے ایسے پکڑی ہوئی ہے گویا کہ جیسے یہ لوگ خود وہاں موجود تھے جب قائد یہ تقریر کر رہے تھے۔ اب یہ بھی مصدقہ نہیں کہ کیا واقعی قائد اعظم نے اس ایک تقریر میں پاکستان کے ایک سیکولر ریاست بننے کے بارے کچھ کہا بھی تھا یا یہ سیکولر طبقہ کی ایک من گھڑت تقریر ہے۔ پھر یہ بات بھی غورطلب ہے کہ قائداعظم کی ساری زندگی کی جدوجہد، ساری زندگی کی تقاریر ان حضرات کو نظر نہیں آتیں، جن میں وہ ہمیشہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کے حصول کے لئے اس لئے کوشاں نظر آتے ہیں تاکہ وہ الگ ملک میں اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں، ورنہ لبرل زندگی تو ہندوستان میں بھی گزاری جا سکتی تھی۔ ابھی تو ان لوگوں کا بس اگر چلے تو علامہ محمد اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر ہیروز سے بھی لبرلزم کے نظریات منسلک کر دیں بلکہ تاریخ کی پرانی کتب اگر رکاوٹ نہ ڈالیں تو یہ لبرم مصنف تحریک پاکستان کو تحریک لبرلزم ہی بنا ڈالیں۔
ہمارے ملک کی زیادہ تر آبادی کو دو وقت کی روٹی کمانے سے فرصت نہیں ملتی۔ ایسے میں میڈیا اور معاشرے میں ہر طرف سے لبرل نظریات کی بھرمار ہو تو عام آدمی ان نظریات کا شکار اس لئے ہو جاتا ہے کیونکہ معاشی پریشانیوں میں اسے سوچنے سمجھنے کا وقت اور ذہنی سکون ہی نہیں ملتا۔
ان حالات میں وہ لوگ قابل تعریف ہیں جو بے لوث اب بھی علم حق بلند کئے ہوئے ہیں۔ ان میں علماء کرام، صحافی، دانشور، تجزیہ نگار، ڈاکٹر، انجینئر الغرض ہر شعبئہ زندگی سےتعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے اور اپنے خاندان کی دینی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دے۔ اپنے ارد گرد پنپنے والی لبرل قوتوں سے ہوشیار بھی رہے اور ان کے سد باب کے لئے لوگوں کو آگاہی بھی دے۔
👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍👍