غزل

ایک دن دے گی دغا ایسا کبھی سوچا نہ تھا

زندگی کا روپ یہ ہم نے کبھی دیکھا نہ تھا

میں پکڑ لائی تھی جگنو روشنی کے واسطے

کالی راتوں کا تسلسل تھا ترا چہرہ نہ تھا

بس انا تھی دو دلوں کے درمیاں جھوٹی انا

بیچ میں ورنہ ہمارے فاصلہ اِتنا نہ تھا

آخرش میں اپنے اندر کی کمی میں مر گئی

تم کو میرے غم کی گہرائی کا اندازہ نہ تھا

تو نظر انداز کردے گا مجھے ایسے کبھی

اس طرح کا کوئی میرے دل کو تو دھڑکا نہ تھا

حصہ