نماز فجر کے بعد برادر مکرّم سمیع الحق شیرپاؤ کی اس اطلاع نے سخت بے چین کردیا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور ڈائریکٹر امورِخارجہ شیخ عبد الغفار عزیز سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔
ابھی کل رات ہی انھوں نے لکھا تھا کہ شیخ کو ایک بار پھر دعاؤں کی ضرورت ہے۔اس سے تشویش ظاہر ہورہی تھی۔۔مرحوم کچھ عرصہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔درمیان میں کچھ افاقہ ہوگیا تھا، لیکن پھر مرض نے شدّت اختیار کرلی۔بالآخر تقدیرِ الٰہی انسانی خواہشات پر غالب آگئی۔
شیخ عبد الغفار نے پاکستان کے تعلیمی اداروں سے فیض اٹھانے کے بعد معہد العلوم الشرعیۃ قطر سے شرعی علوم اور عربی زبان و ادب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔وہ علامہ یوسف القرضاوی حفظہ اللہ کے محبوب شاگردوں میں سے تھے _ بعد ازاں انھوں نے قطر یونی ورسٹی سے جرنلزم کی ڈگری حاصل کی تھی _ وہ تحریر و تصنیف اور خطابت کی زبردست صلاحیتوں کے مالک تھے _ اردو اور عربی دونوں زبانوں میں بہت عمدہ اور برجستہ بولتے تھے _ انہیں اچھی سے اچھی ملازمت کے بھرپور مواقع حاصل ہوئے ، لیکن انھوں نے ہر طرح کی قربانی دیتے ہوئے تحریک اسلامی سے گہری وابستگی برقرار رکھی اور ہمہ وقت دعوتِ دین اور اقامتِ دین کے کاموں کے لیے خود کو وقف کیے رکھا _ وہ ایک باکردار ، پاک باز ، محنتی اور ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے _ جماعت اسلامی پاکستان میں انہیں ایک مربّی کی حیثیت حاصل تھی _ وہ واقعی اسم با مسمّی تھے _ ہر ایک کو عزیز رکھتے تھے اور دوسروں کے نزدیک بھی وہ بہت عزیز تھے _ عرصے تک جماعت اسلامی کے امور خارجہ کے ڈائرکٹر رہے _ اس میقات میں انہیں نائب امیر بنایا گیا تھا _
شیخ عبد الغفار عزیز کے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے سربراہوں اور نمائندہ شخصیات سے قریبی تعلقات تھے _ کسی بھی ملک میں مسلمانوں پر کوئی افتاد آئے ، وہ ظلم کا شکار ہوں ، یا وہاں کی اسلامی تحریک آزمائش سے گزرے ، مرحوم بے چین ہوجاتے تھے اور ان کا قلم حرکت میں آجاتا تھا _ شام ، مصر ، لیبیا ، سوڈان ، فلسطین ، افغانستان ، کشمیر اور ہر اس جگہ جہاں انسانوں پر اور خاص طور سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے ، وہ مظلوموں کی آواز تھے ۔ انھوں نے ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور میں ان ملکوں میں مسلمانوں اور اسلامی تحریکات کے احوال پر بہت مؤثر مضامین لکھے ہیں اور انسانی ضمیر کو بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے _
مرحوم سے مجھے دو مرتبہ تفصیلی ملاقات کرنے اور ان کی ضیافتوں سے شادکام ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے _ پہلی مرتبہ اس وقت جب 2012 میں مولانا سید جلال الدین عمری سابق امیر جماعت اسلامی ہند کو کراچی میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی قرآن نمائش کے افتتاح کی دعوت دی گئی تھی اور مجھے ان کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا تھا _ اُس مناسبت سے ہمارا پاکستان کے اہم شہروں کے دورے کا پروگرام بنایا گیا _ لاہور پہنچتے ہی عبد الغفار عزیز صاحب نے پُرتپاک استقبال کیا اور ہفتہ بھر کی تفصیلات ہمیں گوش گزار کرادیں _ لاہور سے کراچی ، حیدرآباد ، اسلام آباد ، پھر لاہور واپسی ، ہر جگہ رفقاء نے ہمارا استقبال کیا ، غیر معمولی اعزاز و اکرام کا معاملہ کیا اور متعدد پروگرام ہوئے _ عبد الغفار بھائی ہر جگہ ہمیں فالو کرتے رہے اور ہمارے احوال دریافت کرتے رہے _ ہمارے لیے یہ بڑا یادگار سفر تھا _
دوسری مرتبہ مجھے 2014 میں جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماع عام منعقدہ لاہور میں شرکت کی مناسبت سے مولانا عمری کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا _ اُس میں 27 سے زائد ممالک کی اسلامی تحریکات کے سربراہان تشریف لائے تھے _ اس موقع پر عبد الغفار عزیز بھائی کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا قریب سے مشاہدہ ہوا _ وہ ہر ایک سے بہت بے تکلّفی ، اپنائیت اور محبت سے ملتے اور دوسرے بھی ان سے محبّت اور احترام سے پیش آتے _ رفقاء تو ان پر جان چھڑکتے تھے اور ان کے اشاروں کے منتظر رہتے تھے _ ان مواقع پر ان کے معاون برادر سمیع الحق شیرپاؤ سے بے تکلفانہ تعلقات قائم ہوگئے تھے ، جو الحمد للہ اب تک استوار ہیں _
شیخ عزیز کی وفات اسلامی تحریکات اور خاص طور پر جماعت اسلامی پاکستان کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے _ ہم سب کیسے عجیب حالات سے گزر رہے ہیں کہ امّت کی چیدہ چیدہ شخصیات ایک ایک کرکے بہت تیزی سے اٹھتی جارہی ہیں اور ہمارے لیے کفِ افسوس ملنے اور دعا کرتے رہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے _
اے اللہ! شیخ مرحوم کی مغفرت فرما ، ان کی دینی ، دعوتی اور تحریکی خدمات کو قبول کر ، انہیں جنت الفردوس میں اعلٰی العلّیین میں انبیاء و صدّیقین و شہداء کے ساتھ جگہ دے ، تحریک اسلامی کو ان کا بدل عطا فرما اور رفقائے تحریک اور اہلِ خاندان کو صبر جمیل سے نواز _ آمین ، یا ربّ العالمین۔