نفس اگر ضمیر کی آواز کو نظر انداز کر دے تودل سمجھ پر حاوی ہو جاتا ہے اور من چاہے کام کرواتا ہے۔ خوداری کے لیے ہار مان لینا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ لیکن ہر جیت ،جیت کے مترادف نہیں ہو سکتی۔
نفس اور ضمیر کی جنگ میں من کو من چاہے فیصلوں سے روکنا اور سمجھ کو صحیح راستے پر پختہ کرنا بے حد ضروری ہے۔
آن لائن امتحانات میں بہت سے شیطانی وسوسے نفس کو اکساتے رہے، بہت سی توجیہات من کو نقل پر آمادہ کرتی رہیں، دکھ اور تکلیف سسٹم کی ناانصافی پر ہوتا رہا۔
اسی دوران ضمیر نے دستک دی۔ اس کے مطابق گریڈ کم آنا کوئی بہت بڑی ناکامی نہیں۔ لیکن اگر ضمیر دستک دینا چھوڑ گیا تو ناکامی و نامرادی ازلی مقدر ٹھہرے گی۔ سمجھ نے ضمیر کی بات کو اہمیت دیتے ہوئے نقل کے لیے بڑھتا ہاتھ روک لیا۔
سمجھ نے اس سچ کو محسوس کیا کہ اگر ضمیر کی دستک کو نظر انداز کر دیا تو ایک وقت آئے گا جب یہ دستک دینا ہی چھوڑ دے گا۔ اس وقت کوئی نہیں ہو گا جو گناہ سے بچا سکے۔ شاید ہار جانے میں ہی جیت ہے۔ تاکہ ضمیر زندہ رہے، اس کی دستک ہمیشہ آتی رہے۔