شہرِ اقتدار کے دل، کشن گنگا کے کنارے پر اور کوہ چناس کے دامن میں رہنے والے میرے استاد محترم فرہاد احمد فگار سے میری پہلی ملاقات جامعہ آزاد جموں و کشمیر کے شعبہ اردو کے صحن میں ہوئی۔ پہلی ہی ملاقات میں آپ کی زبان کی نفاست اور ادائیگیِ تلفظ نے میرے ذہن پر آپ کی مثبت شخصیت کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب کیے ۔ سادہ لباس ، چہرے پر آسودگی کے اثرات اور طبعیت میں تازگی کی جھلک آپ کے خوش مزاج ہونے کا واضع ثبوت تھے ۔ پہلی ملاقات میں تو میں آپ کے حوالے سےزیادہ علم حاصل نہیں کر سکا البتہ اتنا ضرور جانا کہ موصوف شعبہ میں بہ حیثیت لکچرار فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور زبان اردو اور تلفظ کی ادائیگی کے حوالے سے ادبی محاذ پر قلم کا ہتھیار لیے پوری دیانت داری سے دفاع کر رہے ہیں ۔ راقم چوں کہ غیر ادبی ماحول سے ادبی ماحول میں صادر ہوا تھا اس لیے ادب کے بارے میں اتنی جان کاری نہیں رکھتا تھا لہٰذا یہ گماں ہوا کہ شائد شعبہ میں مجھ جیسے طلبہ کا گزر بسر ممکن نہ ہو ۔ رات یہی سوچتے گزری اگلے دن پہلی کلاس فرہاد احمد صاحب کی تھی ۔ راقم سہما ہوا جناب کے تروتازہ مکھ مبارک کی زیارت کر رہا تھا ذہن میں سیکڑوں سوال جنم لے رہے تھے کہ معلوم نہیں جناب کیسے انسان ہوں گے مجھ جیسے ناداں کو کوئی اہمیت دیں گے یا نہیں میں ان ہی بے معنی خیالات میں گم تھا کہ جناب کا لیکچر شروع ہو گیا اور جناب نے زبان کی اہمیت کے ساتھ ساتھ ہماری تعریفوں کے پل بھی باندھنے شروع کیے۔ ان کے اس لیکچر سے مجھے کافی حد تک حیرانی ہوئی ۔ میرا یہ خیال تھا کہ میں دنیا کا سب سے نالائق انسان ہوں جو اردو زبان کو سیکھنے کے لیے اس شعبہ میں آیا ہوں اور یہ ایک حقیقت بھی تھی کیوں کہ ادب کو سیکھنے کا فیصلہ میرا اپنا تھا اور میرے اس فیصلے کی مخالفت ہر اس شخص نے کی جس کے ساتھ میرا کوئی نہ کوئی واسطہ تھا ۔ لیکن جب محترم نے ادب اور زندگی کے باہمی تعلق کو واضع کیا تو میں اپنے فیصلے پر فخر کرنے لگا۔ میں استاد محترم فرہاد احمد فگار کا احسان مند رہوں گا کہ انہوں نے ادب کے دریا سے کچھ چھینٹے ہمارے ذہوں پر بھی چھڑکے ۔ آپ کے اس پہلے لیکچر نے میرے ذہن میں ادب کی اہمیت کو اجاگر کیا اور میں نے اپنے ذہن کی تاریکی میں امید کی ایک مشعل جلتی دیکھی ۔ فرہاد احمد فگار صاحب کی ادب کے بارے میں لطیف گفت گو نے میرے میرے ذہن میں تجسس کی کیفیت پیدا کر دی اور یہ میری زندگی میں وہ موقع تھا جہاں سے میری زندگی ایک نئی راہ پر گامزن ہوئی اور مجھ میں سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ پھر استاد جی سے میرا تعلق آئے روز گہرا ہوتا گیا ۔ جناب نے ہر طرح سے میری راہنمائی فرمائی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی ادب دوستی کا راز مجھ پر کھلتا رہا۔ ادب کے ساتھ میری اجنبیت دھیرے دھیرے ختم ہوتی گئی چند دن گزرے تھے کہ یہ انکشاف ہوا کہ جناب آزاد کشمیر کے ادبی ماحول سے وابستہ بالخصوص تحقیق کے میدان میں سرگرمِ عمل ہیں ۔ اس انکشاف کے بعد راقم جناب کی شخصیت کے ہر ہر پہلو سے واقف ہو گیا ۔ وقت کا پرندہ مجھے آہستہ آہستہ آئنوں کےاس شہر میں لے گیا جہاں میں نے کوہِ ادب کو تراشنے والے فرہاد کی اپنی شخصیت کو تراشا ہوا دیکھا اور میں یہاں تک جان چکا کہ آپ نام کے ہی فرہاد نہیں بل کہ آپ نے اپنے تیشۂ فن سے اپنی شخصیت کو بھی اپنی تحریر کی طرح تراش کر فرہاد کی تلمیح کا پورا حق ادا کیاہے۔ بلا شبہ آزاد کشمیر میں تحقیق کے طلبہ کے لیے فرہاد احمد فگار ایک ایسی مشعل کا کام دے رہے ہیں جس کی ضیا سے ادب کی تاریک وادیوں میں گمنان تخلیقات کا پتا لگایا جا سکتا ہے ۔ آپ نے دبستان کشمیر کو ادب کے ان جزیروں کی سیر کرائی جہاں کشمیر کے ادب کی ناؤ کا گزر آپ جیسےملاح کے بغیر نا ممکن تھا ۔ آپ نے اپنے عمل سے نئی نسل کے اندر جذبہ حرکت وعمل پیدا کیا ۔ جناب ہر محاذ پر اردو کے سفیر کی حثیت سے زبان کی خدمت کرتے چلے آئے ہیں۔ شعبہ میں قیام کے دوران میں جناب کا یہ خاصا رہا ہے کہ جناب نے الفاظ کی ادائگی ، لفظ کی صوت اور الفاظ کے ربط کے بارے میں جملہ طلبہ کی ہر ممکن طریقے سے راہنمائی کی۔آپ نے اردو کی خدمت کے لیے ہر اس راہ کی جانب دیکھا جہاں سے اردو کی خدمت کی جا سکتی تھی۔ آپ نے اپنے قلم کو کبھی ایک جگہ پر منجمند نہیں کیا بل کہ تحقیق سے لے کر تدوین و تنقید تک آپ ہر شعبے میں قلم کو متحرک کرتے رہے۔ تحقیق میں تو آپ اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن اب تدوین کی دنیا میں بھی آپ ایک مستند حوالے کے طور پر سامنے آ رہے ہیں ۔ ڈاکٹر افتخار مغل کا تحقیقی مقالہ ” آزادکشمیر میں اردو شاعری کا آغاز و ارتقا” جناب کا بہترین تدوینی کام ہے جو کتابی شکل میں منظرِ عام پر آ چکا ہے ۔ اس کے علاوہ متعدد مضامین مختلف اخبارات ، رسائل و جرائد میں وقتاً فوقتاً چھپتےرہتے ہیں جو آپ کی ادب دوستی کا بین ثبوت ہیں۔ ادب کی تشنہ زمین کوآپ جیسے محنت کش ادیب کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے ۔ ادب کی زمین جب بھی بنجر ہونے کو ہوتی ہے تو اس کو جناب جیسے فہم و فراست والے ادیب ہی اپنے تازہ خیالات کی بارش سے جلا بخشتے ہیں ۔ آپ قلم کی قدر ومنزلت سے بہ خوبی آگاہ ہیں اس لیے ہمیشہ قلم کی حرمت کا پاس رکھا اور ادب کو غیر جانب داری کی ترازو میں تولا ۔ دبستانِ کشمیر میں آپ نے اپنی مثبت تحریروں سے روداری ، اخوت اور بھائی چارے کے پھول بانٹے اور کشمیر کی عزت و وقار کو دنیا کی نظروں میں اونچا کیا ۔ نئی نسل کو جہانِ تخلیق میں لانے میں اور ان کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں آپ کا کلیدی کردار ہے ۔ آپ نے ہمیشہ طلبہ کو کسی مددگار کی آس کی بجائے اپنے بل بوتے پر کچھ کر گزرنے کا درس دیا ۔ تحقیق کی تمام جہتوں سے آشنا کرا کر ان میں حقیقت سے واقفیت کی تڑپ پیدا کی ۔ آپ نہ صرف تعلیمی اداروں میں طلبہ کی معاونت کرتے ہیں بل کہ اندرونِ اور بیرونِ شہر جو کوئی آپ سے راہنمائی لینا چاہتا ہے آپ اس کی ہر ممکن حد تک راہنمائی کرتے ہیں۔ آپ نہ صرف کشمیر بل کہ پاکستان میں بھی ایک بہترین محقق، ناقد اور مدون کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ جناب اپنی شفاف سوچ کی طرح ادب کی شفافیت کے قائل ہیں۔ آپ نے متعدد ایسے اشعار کی کھوج لگا کر ان کے حقیقی شعرا کو منظرِ عام پر لایا جو دیگر شعرا کے نام سے منسوب کیے جاتے تھے ۔ ذیل میں چند اشعار نمونہ کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
۱: عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
منسوب: بہادر شاہ ظفر اصل شاعر: سیماب اکبر آبادی
۲:فضائے بدر پیدا کر فرشتے تری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
منسوب: اقبال اصل شاعر: ظفر علی خاں
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
منسوب: اقبال اصل شاعر : سرفراز بزمی(راجھستان)
اس طرح کے متعدد ایسے اشعار ہیں جن کو ان کے حقیقی شاعر کے نام کے ساتھ جوڑ کر آپ نے ادب پر احسان کیا ۔ جناب جس روش ، محنت اور لگن سے کارزارِ ادب میں سرگرمِ عمل ہیں اگر اسی گرم جوشی سے اپنے قلم کو متحرک رکھا تو یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مسقبل میں آپ نہ صرف کشمیر بل کہ پاکستان کے نام ور ادبا میں شمار ہوں گے ۔ اللہ آپ کو صحتِ کاملہ عطا کرے اور ہم جیسے طلبہ کو آپ جیسے عظیم اساتذہ کی صحبت میں بیٹھنے کی توفیق دے (آمین)