آج کل دنیا کتنی مصنوعی ہوگئی ہے مطلبی اور خود غرض ، کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ۔ نہ خلوص سے نہ ادب و لحاظ ، یہ شکوہ نہیں بلکہ تجربہ ہے ۔ ایسے ایسے دھوکے ہوئے ہیں۔ ہوتے ہیں معمولی معمولی چیزوں سے لیکر بڑی بڑی اشیاء میں بندہ ٹھگ جاتا ہے ۔ جوتا لائو ابھی پہنا بھی نہیں ۔ سول کھل گیا تو کہیں کپڑا لا ئو تو جس قیمت کا خریدا اور جگہوں پر وہی کپڑا کم کا بھی ہے تو کہیں زیادہ کا بھی ۔ سبزی انڈے دودھ ڈبل روٹی ہرجگہ اپنی اپنی قیمتیں چل رہی ہیں کو ئی پوچھنے والا نہیں ۔ عام ڈبل روٹی، روٹی چپاتی ، پراٹھا من مانی قیمتوں میں چھوٹے بڑے سائزوں میں دھڑلے سے بیچا جا رہا ہے ۔ لوگ مجبور ہیں ، گھروں میں لائیٹ نہیں ، گیس نہیں ، گرمی ہے وقت نہیں ہے ، باہر جانے کیلئے کنونس نہیں ہے لہٰذا مجبوراً لینا پڑتا ہے۔ ذرا سا پوچھ گچھ کر لو تو مزید بے عزتی ہی ہاتھ آتی ہے گویا جگہ جگہ بلکہ چپے چپے میں انسان ہی انسان کا استحصال کر رہا ہے لوٹ رہا ہے ۔ بس پیسہ بنائو پیسہ کمائو چاہے جیسے بھی ہو ۔ انسان کو انسان کی قدر نہیں بلکہ دنیا وی حقیر اشیاء کیلئے انسان اپنے رتبے سے گر جاتا ہے دوسرو ں کو گرا دیتا ہے بلا سوچے سمجھے عزت کی کوئی پاس داری نہیں ۔ کہیں بھی چلے جائیں کیا ہسپتال کیا اسٹیشن ، کیابینک، کیا سپر مارکیٹ مارا ماری لگی ہوئی ہے ۔ بندہ ہر وقت اپنی عزت اور توقیر چاہتا ہے دوسروں کی نظروں میں معزز رہنا چاہتا ہے مگر دوسروں کو وہ عزت وقار خود نہیں دیتا ۔ کسی سے ہمیں موازنہ تو نہیں کرنا چاہئے ۔ سادہ کھائیں ۔ سستا پہن لیں ، کم لے لیں لیکن حلال ہی کھائیں چاہے کم ہو کیونکہ کم میں شرم نہیں بلکہ حرام میں شرم ہے۔ زندگی کا تجربہ یہی سکھاتا ہے کہ ہمیں مال و دولت نے وہ خوشی اور عزت نہیں دی جتنی لوگوں کی عزت کرنے ، انکی قدر کرنے ، اشیاء کو تحفظ سے استعمال کرنے اور شکر گزاری سے برتنے میں ملتی ہے۔ اس لئے ہمیں اپنے چھوٹو ں کو ، بچوں کو یہی سکھانا چاہئے کہ اپنی محنت ، صلا حیت ، ایمانداری اور سادگی میں خوش رہو ۔ مالدار ہونے کی کبھی بھی تر غیب نہ دوکیونکہ جب ہم خود مالدار بننے کی کوشش میں لگے رہیں گے بچوں کو رشتہ داروں کو اہمیت نہ دینگے تو کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتے لہٰذا انہیں یہ سکھا نا ہو گا کہ بڑے ہوں تو چیزوں کی قدر دیکھیں انکی قیمتوں پر نہ جائیں ۔ دوسو روپے کی گھڑی وہی کام کرے گی جو 2لاکھ روپے کی گھڑی کرے گی ۔ اس طرح لباس کے تقاضوں کو پورا کریں ۔ برینڈ کے چکر میں پھنس کر اپنی قیمت نہ گرائیں ورنہ آپ خود ہی اپنے مقام شرف سے نیچے گر جائو گے ۔ دکھاوے اور اترانے کے چکر میں خود بے وقعت ہو جائو گے بلکہ بے سکون بھی رہنے لگو گے کہ یہ بناوٹی ، مصنوعی دکھاوے کی زندگی مصنوعی ہے اور اس کی خوشی ناپائیدار ہے ۔ اپنے ماحو ل میں دیکھیں لوگ40ہزا ر میں بھی گزارہ کرلیتے ہیں کوئی4لاکھ کما کر بھی مطمئن نہیں کیونکہ وہی خرافاتی اعمال، شیطانی حربے ، فضولیات اور شو شا بندے کا ستیا ناس کر دیتی ہے ۔ دنیا میں پیسے ہی سب کچھ نہیں ہوتے اپنی قیمت پہچانیں ! بھلا انسان کی کیا قیمت ہے ؟ ظاہر ہے اس کی اصل قیمت تو اس کا کردار، اسکا اخلاق ہے ، لوگوں سے برتا ئو ہے ، میل جو ل کا انداز اور رویہ ہے ۔ صلہ رحمی ، ہمدردی، بھائی چارہ، محنت ، محبت ، لگن خلوص ہے نہ کہ اس کی ظاہری بناوٹ شو شا ، شکل و صورت اور بناوٹی انداز ۔ تن کے اجلے من کے کالے کسی کام کے نہیں ۔ اپنا مقام اپنا مرتبہ پہچا نئے اپنی زندگی کا مقصد جا نئے تعلق رب سے رکھئے ، محبت اور خوف رکھئے ۔ “احکام ربی ” اور “سنت نبویؐ” پر عمل پیرا رہ کر ہی ہم ظلم و جبر کا یعنی کفر کا رشتہ توڑ سکتے ہیں ۔ اتنی آزمائشوں ، زلزلوں ، بارشوں ، زمینی آسمانی آفا توں کا کرونا کا سامنا کرنے کے بعد ہی ہمارے اعمال نہیں سدھر رہے ، ہم قدرت کی وارننگ کو بھی نظر انداز کرتے ہیں ۔ ہم بہک گئے ہیں ۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں بے باک اور بدلحاظ ہوگئے ہیں ۔ دین کو پسِ پشت ڈال دیا ہے ۔ ہم اپنی تاریخ بھول چکے ہیں گو یا ہم اسلام کی تعلیمات کھوتے جارہے ہیں ، بہکتے جا رہے ہیں ۔ ہمیں قرآن سے جڑنا ہوگا ۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھنے ہوں گے کیونکہ،
جو بھی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھے
ہر کڑے وقت میں اسلام ہی کام آئے گا
اگر آج بھی دنیا و آخرت میں اپنی کامیابی اور عزت مطلوب ہے تو ہمیں اپنا منصب پہچاننا ہو گا ۔ مطلب
اگر مقام شرف کی گر ہے جستجو تم کو
تو ظلم و کفر سے ہر رشتہ توڑنا ہوگا
خود اعتماد، خود آگاہ و خود نگیں بن کر
خدا سے اپنے تعلق کو جوڑنا ہوگا
ہمیشہ اللہ سے پر امید اور بھلائی کی چاہ رکھتے ہوئے ہی اس کیلئے مثبت کوششیں کرنی ہونگی ۔ بس ایک دفعہ پکا ارادہ کرلیا برائی کے خلاف ڈٹ جانے کا اور اللہ کادامن ، کتاب الٰہی اور سنت کو تھام لیا تو پھر کوئی ڈر خوف نہیں یہی فرقان ہے یہی میری طاقت ہے مان ہے ، پھر مجھے کسی کا ڈر نہیں ، اپنا کام اور مقصد ِ حیات یہ سوچ کر ادا کرتے چلے جائیں کہ
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہو
قول نہیں اپنا عمل بدلیں ۔ اپنا آپ بدلیں ، پہلا قدم اٹھائیں دعا اور امید کے ساتھ یقین اور اعتماد کے ساتھ وہ کہتے ہیں نا کہ
بس ایک دیا جلا دو کسی صداقت کا
زمانہ برسوں تلک خود ہی ہوائیں دے گا
اور یہ کہ جو دوسروں کیلئے نیک خان ہوتا ہے
وہ اپنے آپ ہی اپنی مثال ہوتا ہے