یورپی ممالک میں “نیوڈ بیچیز” (ننگے ساحل) ہیں، جہاں لوگ اپنی فیملیز کے ہمراہ بنا کپڑوں کے لطف اندوز ہوتے ہیں۔۔۔ امریکا اس وقت “ریپ زدہ” ممالک میں سر فہرست ہے۔ جنوبی افریقا کو دنیا میں “ریپ کا دار الحکومت” کہا جاتا ہے۔ جنت نظیر اور دنیا کی ہر عیاشی سے مالا مال سویڈن جہاں ہر چوتھی خاتون یا لڑکی “ریپ شدہ” ہے۔ “نام نہاد سیکولر ریاست” بھارت جہاں ہر بائیس منٹ میں عورت جنسی تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہے اور زیادہ تر اپنے بھائی، باپ، تایا، چچا، کزن رشتے داروں کے ہاتھوں ہی یہ کارنامہ سر انجام پاتا ہے۔ برطانیہ اور جرمنی جنسی زیادتیوں کے حوالے سے سخت پریشان ہیں، فرانس میں صرف 10 فیصد شکایتوں کے مطابق ایک سال میں 75,000 خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔۔
(اس معاشرے میں خواتین کی کتنی “عزت” ہے؟ اس کے لیے آپ یو آن ریڈلے کی کتاب “ان دی ہینڈز آف طالبان” پڑھ لیں۔)
سوال یہ ہے کہ جانوروں سے زیادہ جنسی خواہشات کی آزادی دیے جانے کے باوجود ماڈرن ممالک میں یہ سب کیوں؟ ہم بھی ان ہی تمام اقوام کی ذہنی اور عملی غلامی کا شکار ہیں اس لیے پچھلے سال سات سو سے زیادہ واقعات پاکستان میں بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ آپ “نچ پنجابن نچ” “منی کی بدنامی” “شیلا کی جوانی” “کریکٹر ڈھیلا” اور “اچھی باتیں کر لیں بہت اب کروں گا گندی بات تیرے ساتھ” کرتے رہیں “ساری نائیٹ بے شرمی اپنی ہائیٹ کو چھوتی رہے”۔ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر رات تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر “ٹی وی چینل” پر سوائے بیہودگی، نیم عریاں عورتیں اور محرم و نامحرم کا فرق مٹائے جانے کے علاوہ اور کونسا ڈھنگ کا کام وقوع پذیر ہو رہا ہے؟
پہلے آپ معصوم بچیوں کو قندیل بلوچ بنائیں پھر اس کا قتل کروائیں، اس پر ماتم کریں اور پھر ڈرامے بنا کر اس کو “مادر ملّت” بنا دیں۔ تمام کے تمام ٹی وی چینلز سوائے عاشقی معشوقی، اِس کی لڑکی اُس کے ساتھ اور اِس کی بیوی فلاں دوسرے مرد کے ساتھ کے ڈرامے دکھائیں۔ “لباس کو تنگ سے تنگ اور چھوٹے سے چھوٹا” کر کے ملک کے نوجوانوں کو ہوس زدہ اور حواس باختہ کر دیں۔
اس کے بعد 4 روپے 99 پیسے میں “لگے رہو ساری رات” کے اشتہارات چلائیں۔ ایسے شاندار اور اخلاق یافتہ اشتہارات جس میں فون پر بات کر کر کے لڑکے کے کان تک پر نشان پڑ جائے اور پھر شادی کو مشکل ترین کرکے “گرل فرینڈ” کو آسان بنا دیں۔
میری ایک دوست ترکی گئی اور آکر بتانے لگے “ترکی میں موبائل سم, پاکستانی چار ہزار روپے” کی ملتی ہے۔ جبکہ یہاں فری میں اور 50 روپے کے لوڈ کے ساتھ۔ کیا بے حیا بنانے اور اخلاق باختہ کرنے کے لیے آپ کو میرے ملک کے ہی نوجوان مرد و خواتین ملے تھے؟ آپ ساحر لودھی، شائستہ واحدی اور وینا ملک سے “رمضان ٹرانسمیشن” کروائیں، فہد مصطفیٰ سے شرم اور حیا کا جنازہ نکلوائیں۔ خواتین اور بچیوں سے ہر بے شرمی کا کام کروانے والے وقار زکا کو سر پر بٹھائیں۔ لفظ مولوی کو گالی بنا کر دین، اسلام، مذہب اور قرآن کو اپنے میڈیا، شوبز حتیٰ کے تعلیمی اداروں تک سے نکال کر باہر پھینک دیں۔ اور پھر انتظار کریں کوئی حسن بصری اور امام بخاری پیدا ہوجائے؟ ہم “احمقوں کی جنت” میں رہتے ہیں، ہم “پاگلوں کے دیس کے باسی” ہیں؟ ہم فتنوں کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ ریپ اور بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کو آڑ بنا کر اسلامی ملک میں لبرل ازم کی بنیاد رکھیں۔ اور سیکس ایجوکیشن کا نفاذ کروانے کے لیے کوششیں کریں اور سمجھیں کے اسطرح ایسے واقعات کی روک تھام ہو جائےگی۔ صریحاً خود کشی ہے اور یہی ایجنڈا ان ممالک کا ہے جن کی آنکھ کو پاکستان کا وجود چبھتا ہے۔ یاد رکھیں جب تک آپ زنا کی سزا “رجم” اور 100 کوڑے نہیں رکھتے ہیں، شادی کو آسان، مرد و عورت کی دوستیوں والے تعلقات کو اور زنا کو مشکل نہیں کرتے ہیں۔ حلال کو آرام دہ اور حرام کو دشوار نہیں کریں گے یہ واقعات مسلسل ہوتے رہیں گے۔
قرآن کے نظام میں برکت ہے، شریعت میں عزت ہے، آپ ہر چوک اور چوراہے پر بھی کیمرہ لگادیں تب بھی یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ سوائے اسلامی نظام(قرآن و سنت کے احکامات) کے نفاذ کے اور کوئی دوسرا راستہ ہمارے پاس نہیں ہے۔
لبرل ایجنڈہ جاری کر کے اس قوم کے اندر سے رہی سہی غیرت اور شرم کا جنازہ نکالا جانا مقصود ہے. اب یہ طے کرنا قوم کا کام ہے کہ قرآن کی برکتیں درکار ہیں یا پھر شیطانی نظام! حکومت کا ریپسٹ کو خسی کرنے کا اعلان، اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کا نااعوذ باللّٰہ مذاق ہے۔ کیا ڈر ہو گا، موت تو نہیں ہے نا۔ یہاں ہم کو اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے دوزخ سے کتنا ڈرایا پھر بھی ہم گناہ کرتے ہیں تو جب ریپ کرنے والے کو معلوم ہو کہ اس جرم میں صرف آپریشن ہو گا تو اسکو کیا ڈر ہو گا وہ چاہے ایک بار جرم کرے یا زیادہ بار سزا تو معمولی ہے۔ اس عورت یا لڑکی اور بچے کا کیا بنے گا۔ معاشرہ کیا اسکو قبول کرے گا؟ تف ہے ہم پر۔ ہم مردہ قوم ہیں!! اے اللّٰہ ہمیں سیدھے راستے پر لگا اور شعور عطا فرما
(آمین یا رب العالمین)