لطیفہ وہی پرانا ہے مگر موقعہ کی مناسبت سے ایک مرتبہ پھر سن لیں۔
ایک ہوائی جہاز کے انجن میں خرابی پیدا ہوگئی جس سے جہاز جھٹکے کھانے لگا۔ پائلٹ نے صورتحال پر قابو پانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ جہاز رفتہ رفتہ نیچے کی طرف جا رہا تھا، اور کچھ دیر بعد وہ زمین کے اتنے قریب آ گیا کہ سمندر نظر آنے لگا جس میں ایک کشتی تیر رہی تھی۔ اتنے میں جہاز کے اسپیکرز آن ہوئے۔ یہ جہاز کے کپتان کی آواز تھی۔ کپتان کہہ رہا تھا:
معزز خواتین و حضرات!! “آپ نے حوصلہ نہیں ہارنا۔ ہم آخر وقت تک مقابلہ کریں گے اور بہت جلد بخیریت اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے”۔
کپتان کی آواز،جو کافی دیر سے غائب تھی، سن کر مسافروں کی جان میں جان آئی۔
پھر کپتان کی آواز گونجی:
خواتین و حضرات! اگر کسی وقت جہاز کو ہنگامی لینڈنگ کی ضرورت پیش آ جائے تو آپ نے کسی گھبراہٹ اور جلدی بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا، بلکہ ساتھی مسافروں کا خیال رکھتے ہوئے، ایمرجنسی گیٹ سے نیچے سلائیڈ کر جانا ہے۔ یہ جو نیچے سمندر میں ایک کشتی آپ کو رینگتی نظر آ رہی ہے، میں وہیں سے بات کر رہا ہوں۔
میاں نواز شریف صاحب کی مثال بھی جہاز کے اسی پائلٹ والی ہے۔ وہ پائلٹ، جو مسافروں کو جہاز میں چھوڑ کر پیراشوٹ کھول کر نیچے کود گیا ہے اور اب کشتی پر بیٹھ کر قوم کو بھاشن دے رہا ہے۔ جو لوگ آغاز ہی سے نوازشریف کو جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ یہ اس وقت بھی ایسی ہی لفاظیوں پر مشتمل، لکھی ہوئی تقاریر کرتے تھے۔ بلکہ ضیاءالحق کی طرح ہر ہفتہ دس بعد قوم سے خطاب کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ ان تقریروں میں ان کا گلہ بھی بھراتا تھا۔ آنکھیں بھی چھلکتی تھیں اور انہی بھرائی آوازوں اور چھلکتی آنکھوں کے چلمن سے ہر سال نئی نئی ملوں اور فیکٹریوں کی قطاریں بھی برامد ہوتی تھیں۔ اداکاری کا یہ سلسلہ اس وقت سے چل رہا ہے جب آپ بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ سینیٹ میں بھی آپ کو اکثریت حاصل تھی اور آپ جس طرح کا چاہے قانون پاس کروا سکتے تھے۔ مگر شومیءِ قسمت، دن پھرے تو صرف شریف خاندان کے نہ کہ غربت کی ماری اس قوم کے۔ آج، قوم کے تیس پینتیس برس ضائع کرنے کے بعد بھی آپ کو شکوہ ہے کہ آپ کو ٹھیک سے موقع نہیں دیا گیا۔
میاں صاحب کی تقریر سن کر جو لوگ ایک مربتہ پھر امید سے ہو چکے ہیں وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر تقریروں سے ملک کی تقدیر بدلنی ہوتی تو کپتان کی تقریروں سے کب کی بدل چکی ہوتی۔ بلکہ کپتان تو وزیراعظم بننے کے بعد بھی وہی پرانی “موٹیویشنل اسپیکر” ٹائپ تقریریں کر رہا ہے، مگر حالات نہیں بدل رہے۔ آپ نے حسبِ سابق کسی اچھے تقریر نویس سے تقریر تو لکھوا لی، ڈلیور بھی کر دی، واہ واہ بھی سمیٹ لی لیکن فیصلہ اب آپ کے عمل پر موقوف ہوگا کہ آپ مستقبل میں کیا کرتے ہیں۔ مسلم لیگ کی تاریخ رہی ہے کہ ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ نے اسے باندی بنا کر اس کے بطن سے ایک نئی مسلم لیگ پیدا کر ڈالی ہے۔ خود نون لیگ اسی طرح پیدا ہوئی۔ اس کے علاوہ جنرل ایوب کی کنونشن مسلم لیگ، خان عبدالقیوم کی مسلم لیگ، جونیجو کی مسلم لیگ، پیرپگاڑا کی فنکشنل مسلم لیگ، میاں منظور وٹو کی جناح لیگ، چوہدری شجاعت کی قاف لیگ، جنرل ضیاءالحق کے بیٹے کی مسلم لیگ ضیاء، مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ۔۔۔اور نہ جانے کتنی رنگ برنگی مسلم لیگیں یہ قوم دیکھ اور بھگت چکی ہے مگر سبق پھر بھی نہیں سیکھا۔
اپوزیشن اگر واقعی حکومت سے جان چھڑانا چاہتی ہے تو یہ بڑا آسان کام ہے۔ سب ارکان پارلیمنٹ استعیفے دیں، حکومت خودبخود زمین بوس ہوجائے گی۔ نہ اے پی سی کرنے کی ضرورت ہوگی، نہ لانگ مارچ، نہ دھرنا، نہ جلسہ نہ جلوس۔ مگر ان میں شاید اتنی قربانی دینے کی سکت بھی نہیں، کجا کہ جان کے نذرانے پیش کریں