ہم جس عالمِ فانی میں سانس لے رہے ہیں اس کا خاصہ یہ ہے کہ یہاں اکثر ایسے ایسے واقعات و حالات رونما ہو جاتے ہیں جن کا تصور بھی نہیں ہوتا یا یہاں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس پر کچھ دیر کے لیے یقین کرنا مشکل ہوتا ہے۔ایسا ہی میرے ساتھ ۱۶ ستمبر ۲۰۲۰ء کی شب تقریباً ۱۰بجے کے قریب ہوا میں فیس بک پر آن لائن تھا کہ اچانک ڈاکٹر تنویر گوہرؔمظفر نگری کی پوسٹ پڑھی کہ طنز و مزاح کے شاعر نشترؔ امروہوی کا انتقال ہوگیا ۔کچھ دیر کے لیے مجھے یقین نہ آسکا لیکن پھر سوچا کی ڈاکٹر تنویر گوہرؔ غیر ذمے دارانہ اور غلط پوسٹ نہیں کر سکتے دل پھر بھی نہ مانا تو فوراً ڈاکٹر رضیؔ امروہوی کو فون لگا دیا چونکہ نشترؔامروہوی ان کے بہنوئی تھے۔ڈاکٹر رضیؔ امرہوی کے افسردہ لہجے نے میرے سوال سے پہلے ہی ثابت کر دیا تھا کہ یہ خبرغم صحیح ہے پھر بھی میں نے ان سے سوال کیا’’خیریت؟؟؟‘‘تو انھوں نے کہا’’نہیں!!خیریت نہیں ہے‘‘۔وہ ایک لمحے خموش رہنے کے بعد بولے سید ین کا انتقال ہوگیا ہے۔میں نے وجہ پوچھی تو کہا کہ مجھے بھی ٹھیک نہیں معلوم۔۔اور اس کے بعدفون پر رابطہ ختم ہوگیا۔اب میرے سامنے ایک ہنستا مسکراتا سانولے رنگ کا گول چہرہ تھا۔وہ چہرہ سیدین عرف نشترؔ امروہوی کا تھا۔مجھے یاد آیا کہ ان سے میری پہلی ملاقات ۲۰۰۸ء میں علی گڑھ کی ایک ادبی نشست میں مرحوم عبدا لحکیم جالبؔ سیفی کے یہاں سراے رحمان میں ہوئی تھی۔جب میں شعراء کی فہرست بنا رہا تھا چونکہ نظامت مجھے ہی کرنی تھی۔اچانک ڈاکٹر مجیب شہززؔ کے ساتھ دو افراد نشست گاہ میں داخل ہوئے دونوں سوٹ بوٹ میں بہترین انداز میں، قیافے سے ہی ظاہر ہورہا تھا کہ دونوں ادیب یا شاعر ہیں۔ڈاکٹر مجیب شہزرؔ نے دونوں کا تعارف پیش کیا۔یہ ڈاکٹر رضیؔ امروہوی صاحب ہیں اور یہ نشترؔ امروہوی صاحب۔میں نے انھیں سلام کیااور ان کا استقبال کرتے ہوئے نشست گاہ میں ان سے بیٹھنے کی گذارش کی نشست شروع ہوئی ایک کے بعد ایک شعراء اپنی تخلیقات پیش کرتے رہے۔میرے ذہن میں اس وقت تک یہ واضح نہیں تھا کہ یہ دونوں افراد سنجیدہ شاعر ہیں یا طنز و مزاح کے لیکن جب نشترؔ امروہوی صاحب نے کلام پیش کیا تو مجھے دلاور فگار اور اکبر الہ آبادی کا کلام یاد آنے لگا مجھے لگا کہ ساغرؔ خیامی کے بعد طنز و مزاح کے حوالے سے معیاری کلام نشترؔ امروہوی صاحب سے سننے کو مل رہا ہے۔نشست میں نشترؔ صاحب کو خوب داد ملی اور ان کے بعض اشعار کو کئی مرتبہ سنا گیا۔مجھے اس دوران یہ تو نہ معلوم تھا کہ مرحوم کا مکتبِ فکر کیا ہے لیکن طنز و مزاح کے کلام سے بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ موصوف محبِ رسولؐ اور عاشقِ آلِ رسولؐ ہیں۔ان سے اس نشست کے بعد بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا کیونکہ اس نشست کے بعد ڈاکٹر رضیؔ امروہوی سے مراسم کا سلسلہ برقرار ہوگیا تھا چونکہ وہ ان کے بہنوئی تھے تو جب وہ علی گڑھ آتے تو ڈاکٹر رضیؔ امروہوی کے توسل سے ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتیں۔مرحوم خود میرے غریب خانے پر کئی بار تشریف لائے۔والد صاحب سید ہلال حسین نقوی صاحب سے ان کی تادیر گفتگو رہتی۔والد صاحب ان سے کلام کی فرمائش کرتے تھے وہ بلا کسی تردد کے کلام پیش کرتے اور پورے ماحول کو قہقہہ زاربنا دیتے۔اس کے علاوہ ان کے ساتھ کئی مشاعرے اور محفلیں پڑھنے کا بھی موقع ملتا رہا۔وہ جس محفل یا مشاعرے میں پہنچتے سامعین کو داد دینے پر مجبور کر دیتے۔ایسا ہی ایک واقعہ مجھے یاد آرہا ہے ۔۲۰۱۰ء ابنِ سینا اکیڈمی علی گڑھ کے ہال میں ایک مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت معروف ناول نگار پروفیسر قاضی عبدالستار کر رہے تھے۔ان کی تنک مزاجی اور ادبی موقف سے ساری ادبی دنیا واقف ہے ۔وہ شاعری کو ثانوی درجہ دیتے تھے اور نثر کو اولیت دیتے تھے اور ایک طرح سے شاعری سے متنفر نظر آتے تھے۔میرے ایک استاد کے مطابق جب وہ شعبۂ اردو اے ایم یو علی گڑھ میں صدرِ شعبہ تھے تو شعبے کی جانب سے مشاعرے کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں اس زمانے کے بڑے بڑے شعراء شرکت کر رہے تھے لیکن قاضی صاحب پروگرام میں نہ جا کر اپنے کمرے میں بیٹھے تھے ۔جب ایک بڑے شاعر کے کلام سنانے کی باری آئی توکسی صاحب نے ان سے کہا کہ اس وقت مشاعرے میں تشریف لے چلیں فلاں شاعر کلام پیش کر رہے ہیں تو انھوں نے برجستہ کہا’’میرے کان کوئی اگالدان ہیں کہ جو چاہے گا تھوک دے گا‘‘۔اس جملے سے قاضی صاحب کاشاعری کے مطابق خیال واضح ہے لیکن میں نے خود دیکھا کہ انھوں نے نشترؔ امروہوی کو بغور سنا اور آخر میں خطبۂ صدارت میں ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میری نگاہ میں طنز و مزاح کے حوالے سے دلاور فگار کے بعد جو شاعر متاثر کرنے کا فن جانتا ہے وہ نشترؔ امروہی ہے۔یہ سننا تھا کہ سارا ہال تالیوں کی گونج میں ڈوب گیا۔
نشترؔ امروہوی کے مزاج کی بات کی جائے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ وہ نہایت خوش اخلاق،خوش مزاج اور متوازن قسم کے بذلہ سنج تھے۔وہ نہایت مشہور ہونے کے باوجود انا پرستی و تکبر سے دور تھے جس سے ملتے تھے اس کو اپنا گرویدہ کر لیتے تھے۔وہ دوسروں کی بہت عزت کرتے تھے چاہے وہ کسی عمر یا کسی سن کا فرد ہو۔وہ اکثر فون پر لوگوں کی خیریت معلوم کرتے رہتے تھے۔مہمان نوازی میں بھی کوئی کسرنہ چھوڑتے تھے اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں ایک مرتبہ ان کے یہاں دلشاد گارڈن دہلی میں گیا انھوں نے بہترین ضیافت کی ۔
ان کی شاعری ان کی شخصیت کا بھرپور اور مکمل آئینہ تھی۔جس طرح وہ سادہ لوح اور سادہ مزاج تھے اسی طرح ان کی شاعری میں سادگی و سلاست کا انداز پایا جاتا ہے خاص بات یہ ہے کہ انھیں آسان زبان میں نہایت گہری بات کہنے کا ہنر آتا تھا۔وہ بغض و کینہ اور فساد سے دور رہتے تھے۔اس بات کو انھوں نے ایک منقبتی کلام میں اس طرح کہا تھا:
نہ ہم ہیں اہلِ سیاست نہ ہم فسادی ہیں
حسینؑ والے ہیں ہم لوگ اتحادی ہیں
انھیں صرف طنز و مزاح پر ہی دسترس حاصل نہیں تھی بلکہ نعت و منقبت میں بھی ان کا ایک منفردانداز تھا۔رسولؐ اور آلِ رسولؐ کے وہ سچے عاشق تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ نعت میں بھی آلِ رسولؐ کے لیے کم از کم ایک شعر ضرور کہتے تھے۔مثلاً:
کہاں انسان سے ہو پائے گی مدحت محمدؐ کی
زباں کر ہی نہیں سکتی بیاں عظمت محمدؐ کی
عظیم المرتبت شبیرؑ کا وہ سجدۂ آخر
بڑھائی کربلا میں آپ نے عظمت محمدؐ کی
ان کی طنز و مزاح کی شاعری کا تجزیہ کریں تو ان کے مجموعے کلام ’’پوسٹ مارٹم‘‘کے مطالعے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے طنز میں نشتریت ضرور ہے لیکن یہ نشتریت اپنے ساتھ ساتھ مرہم بھی لیے ہوئے ہے وہ کسی کی دل آزاری نہیں کرتے بلکہ اگر کہیں کوئی ایسا مرحلہ دیکھتے ہیںجو ناگوارِ خاطر ہو یا اگر کسی کی اصلاح مقصود ہو تو وہ نہایت خوش مزاجی کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیں سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ ان کا مقصد کیا ہے وہ کیا کہنا چاہتے ہیں اور کسی کو گراں بھی نہیں گذرتا۔ان کے یہاں طنز و مزاح دو الگ الگ شئے نہیں بلکہ طنز و مزاح ایک ہی سکے کے دو پہلو نظر آتے ہیں ۔وہ طنز و مزاح کو اس انداز میں شیر و شکر کر دیتے ہیں کہ وہ جن تک پہنچتے ہیں ان کے شعور کے لیے ایک دعوتِ فکر ہوتی ہے۔وہ طنز و مزاح کے نام پر پھکّڑ پن یا فحاشت نہیں پروستے وہ اپنے ہاتھ سے کبھی ادبی تقاضوں کو جانے نہیں دیتے۔انھوں نے سماج و کائنات میں جو زہر دیکھا اسے آبِ حیات سمجھ کر پیا اور قارئین کے سامنے اس کی ایسی صورت پیش کی جس سے ان کے ذہنی افق کو روشنی فراہم ہوسکے۔انھوں نے ادب کی مختلف اصناف میں طنز و مزاح کی شاعری کی ان کی بہت سی نظمیں نہایت مشہور ہوئیں۔مثلاً۔شکوہ اورجوابِ شکوہ۔ان دونوں نظموں میں انھوں نے علامہ اقبالؔ کی شاعری کے نقوش پر طنز و مزاح کے چراغ روشن کئے ہیں۔جو آسان کام نہیںکیونکہ اقبالؔ کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان کے پیغام سے استفادہ کرتے ہوئے نئی راہ وہ بھی طنز و مزاح کی دنیا میں نکالنا آسان نہیں ہے۔ان کی ایک نظم ’دعوتِ ولیمہ‘ بھی بہترین نظموں میں شمار کی جا سکتی ہے جس میں انھوں نے اکثر ہونے والی ولیمے کی دعوتوں کا حال نہایت خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے ان کی یہ نظم ان کے مشاہدے اور بلندیِ فکر کی بہترین مثال ہے۔مثال کے لیے ایک بند ملاحظہ فرمائیں:
آئے کباب سیخ تو ہتھیا گیا کوئی
پلّے پڑا نہ کچھ بھی تو جھلّا گیا کوئی
چٹنی سمجھ کے سونٹھ وہاں کھا گیا کوئی
اور رائتے کو کھیر میں اوندھا گیا کوئی
اس ہڑبڑی میں ہوگئی کچھ ایسی گڑبڑی
پوری پلیٹ کھیر کی دولہا پہ جا پڑی
اسی طرح ان کی کئی نظمیں ایسی ہیں جس میں انھوں نے روزانہ کے حالات و معمولات اور زندگی کی متعدد پریشانیوں کا ذکر کیا ہے۔لیکن یہ مسائل قاری کے ذہن کو الجھاتے نہیں بلکہ اسے دشواریوں سے نکلنے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔
انھوں نے نہ صرف مسدس بلکہ غزل کی فارم میں بھی مزاحیہ شاعری سے لوگوں کو متاثر کیا ۔مثلاً:
آج کل نفع کے نقصان کی ایسی تیسی
آپ کے مان کی سمان کی ایسی تیسی
کوئی بھی کام ہو رشوت کے بنا ناممکن
آپ کی جان کی پہچان کی ایسی تیسی
ایک بیٹی کے سوا کچھ نہ دیا سسرے نے
یہ ہے سامان تو سامان کی ایسی تیسی
گامزن ہم ہیں کرپشن میں ترقی کی طرف
چین کی روس کی جاپان کی ایسی تیسی
پندر ہ سو کی جگہ دو سو روپے پکڑا دو
پھر جو کٹ جائے تو چالان کی ایسی تیسی
گڑبڑا دے جو مہینے کا بجٹ دو دن میں
ایسے آجائے تو مہمان کی ایسی تیسی
اپنے لیڈر جو اتر آئیں ادا کاری پر
شاہ رخ خان کی سلمان کی ایسی تیسی
شعر بے بحر پڑھو شاعرِ اعظم بن جائو
سارے اوزان کی ارکان کی ایسی تیسی
چند سکوں کے عوض بیچ دیا جس نے وطن
ایسے ہندو کی مسلمان کی ایسی تیسی
جو بھی نشترؔ تری اس نظم میں ڈھونڈے کیڑے
ایسے ہر صاحبِ دیوان کی ایسی تیسی
مذکورہ اشعار سے نشترؔ امروہوی کا اسلوب اور فن آشکار ہے۔ان کے یہاں زمانے کا درد،وطن کی محبت،سماج کے بدلتے ہوئے اقدار کا نوحہ مزاح کے لباس میں خوبصورتی بکھیرتا ہوا نظر آتا ہے۔کیا خبر تھی کہ وہ اچانک اتنی جلدی اس دنیا فانی سے حقیقی دنیا کی طرف چلے جائیں گے اور اپنے قارئین کو ہنساتے ہناتے رلا جائیں گے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے