آج معاشی عالمگیریت کے دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اقتصادی ترقی کے فروغ کی ایک اہم قوت میں ڈھل چکی ہے اور ایسے ممالک جنہیں ٹیکنالوجی میں عبور حاصل ہے یقیناً دوسرے ممالک سے کئی اعتبار سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ چند نئے مسائل نے بھی جنم لیا ہے جن میں ڈیٹا سیکیورٹی سرفہرست ہے ۔ایسے میں عالمی ڈیجیٹل گورننس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ ماہرین کے نزدیک ڈیٹا سیکیورٹی سے متعلق معاملات کو جامع ، بامعنیٰ ،شفاف اور حقیقی بنیادوں پر حل کیا جائے اور بالادستی ،دھونس اور عالمی قواعد و ضوابط سے منافی سرگرمیوں سے اجتناب کرتے ہوئے ہر ملک کی خودمختاری کا احترام کیا جائے۔
چین کا شمار بھی دنیا کے ان سرفہرست ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں ٹیکنالوجی کی ترقی نے ملک کی اقتصادی سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اورعوام کی زندگیوں میں بے پناہ سہولیات لائی گئی ہیں۔دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے چین کی جانب سے حال ہی میں ڈیٹا سیکیورٹی کے لیے ایک “گلوبل انیشیٹو “تجویز کیا گیا ہےجس کا مقصد عالمی سطح پر ڈیجٹیل گورننس کو مزید مربوط بناتے ہوئے کثیر الجہتی کا فروغ ، سیکیورٹی و ترقی میں توازن لانا ، شفافیت اور منصفانہ نظام کو یقینی بنانا ہے۔ایک بڑے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین کی خواہش ہے کہ دنیا میں ایک محفوظ ڈیجیٹل ماحول کو فروغ دیا جائے اور تمام عالمی فریقین کے درمیان تعاون کو آگے بڑھایا جائے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ عالمی برادری ہر ملک کی جغرافیائی سالمیت کے احترام پر تو متفق ہے لیکنابھی تک ڈیجیٹل سالمیت کی مکمل تعریف یا وضاحت ہمارے سامنے نہیں آ سکی ہے۔اس حوالے سے پائے جانے والے ابہام سے چند ممالک یا طاقتیں فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لہذا یہ لازمی ہو چکا ہے کہ دنیا بھر میں ڈیجیٹل گورننس کی سمت متعین کی جائے اور ایسی طاقتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو ڈیٹا سیکیورٹی ،سائبر اسپیس جیسے امور کی آڑ میں دیگر ممالک کی ڈیجیٹل ترقی سے خائف ہیں۔
بدقسمتی سے امریکا جیسا ملک جو خود کو سپر پاور کہلاتا ہے ، وہ بھی ڈیجیٹل گورننس میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے اس وقت منفی حربوں پر عمل پیرا ہے ۔ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چین کی کمپنیوں کو محدود کرنے کے لیے پابندیوں کا سہارا لیا جا رہا ہے اور ایک “کلین نیٹ ورک” کی آڑمیں چین کی عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔”دی انٹرنیٹ سوسائٹی” نے بھی امریکا کے کلین نیٹ ورک پروگرام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہےاوراسے انٹرنیٹ کی ترقی کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ امریکی یکطرفہ اقدامات کسی بھی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے شایان شان نہیں ہیں جبکہ عالمی قواعد و ضوابط کے برعکس چینی کمپنیوں پر عائد کردہ الزامات میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔
چین نے اس ضمن میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی حیثیت سے ایک ذمہ دار ملک کا کردار نبھاتے ہوئے عالمی ڈیجیٹل گورننس کے لیے قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں تاکہ باہمی احترام ،کھلے پن ،شفافیت کے اصولوں کے تحت مشاورت اور تعاون سے ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے جس میں ہر ملک کے لیے محفوظ ڈیجیٹل ماحول یقینی بنایا جا سکے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں موبائل انٹرنیٹ صارفین کی تعداد ساڑھے تین ارب ہو چکی ہے جبکہ ڈیجیٹل معیشت کا عالمی جی ڈی پی میں تناسب پندرہ فیصد سے زائد ہے۔ ایسے میں عالمی سطح پر ڈیٹا سیکیورٹی سے متعلق خطرات ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے مربوط ڈیجیٹل گورننس کی ضرورت ہے۔ڈیٹا سیکیورٹی کا تعلق براہ راست قومی سلامتی ،عوامی مفادات ،شہری حقوق سے جڑا ہوا ہے لہذا کوئی بھی ملک ان خطرات سے تنہا نہیں نمٹ سکتا ہے ،اس لیے گلوبل ڈیجیٹل گورننس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
چین نے واضح کیا ہے کہ ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قومی تقاضوں اور قوانین کے مطابق ڈیٹا سیکیورٹی کے لیے موئثر انتظامات کر سکے جبکہ دوسری جانب دیگر ممالک اور عالمی کمپنیوں پر بھی زور دیا ہے کہ ہر ملک کی خودمختاری ، ملکی قوانین، ڈیٹا گورننس کا احترام کیا جائے اور ڈیٹا تک رسائی کے لیے غیر قانونی کارروائیوں سے گریز کیا جائے۔گلوبل انیشیٹو میںصارفین کی نجی نوعیت کی معلومات تک رسائی کی سختی سے حوصلہ شکنی کی گئی ہے جبکہ دیگر ممالک کی نگرانی یا جاسوسی کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کی شدید مخالفت کی گئی ہے۔ چین کی جانب سےڈیٹا سیکیورٹی کے لیےبروقت پیش کردہ گلوبل انیشیٹو کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ تمام فریقین بشمول حکومتیں اور کاروباری ادارے، آج کے ڈیجیٹل دور میں اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں اور چین کے ساتھ مل کر گلوبل ڈیجیٹل گورننس کے فروغ سے مشترکہ ترقی کی جستجو کریں جس سے پوری انسانیت کا بھلا ہو سکے۔