یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں یونیورسٹی میں پڑھا کرتی تھی یوں تو تمام ہی کلاس فیلوز سے دوستی تھی ،مگر امجد سے میری بہت زیادہ دوستی ہوگئ امجد مجھ سے عمر میں ایک سال چھوٹا تھا ۔وہ بھی مجھے بڑی بہن کی طرح سمجھتا تھا۔میری چھوٹی بہن مجھ سے ایک سال جونیر تھی وہ ایم-اے اردو ادب میں تھی۔امجد اور ثریا کی آپس میں اچھی کیمسٹری تھی ،مگر ثریا اس بات کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔ مگر میں نے اندازہ لگالیا تھاکہ امجد پڑھائی ختم ہوجانے کے بعد ثریا سے شادی کا خواہش مند ہوگا۔ کیونکہ ثریا سیرت و صورت دونوں اعتبار سے عمدہ شاگردوں میں سی تھی۔مگر ثریا کا، دھیان صرف تعلیم کو مکمل کرنا تھا تاکہ وہ کچھ بن سکے۔
ہمارے ابا جان لاہورکالج کے پرنسپل تھے۔اور ساتھ ہی ساتھ بارھویں جماعت کی طلباوطلبات کو پڑھا کرتے تھے۔ثریا کے ذوق و شوق کے اعتبار سے ابا جان کی خواہش تھی کہ ثریا بھی کالج میں پڑھائے۔ایک اچھے پروفیسر کے طور پر اسے دیکھنا چاہتے تھے۔مگر ثریا ایسا نہ چاہتی تھی وہ تو ایک ادیب یا نامور شاعر بننے کی خواہش رکھتی تھی ۔مگر اصل حقیقت سے صرف اللہ کی ذات جانتی ہے۔ان کی ذات یوں ادھوری سی ہوجاتی ہے۔شاید ثریا اور میرے باپ ان ہی والدین میں شمار ہوتے ہیں ۔جو تعلیم کو اپنے بچوں میں زبردستی اس کا وزن ڈالنے لگتے ہیں ۔اور بچوں کی زندگی خرابی کا باعث بننے لگتی ہے۔
ابا نے آج صبح مجھے آواز دی۔۔۔۔۔رقیہ آؤ بیٹا رقیہ کہاں ہو۔۔۔۔۔؟
جی ابّا ۔۔!
بیٹا رقیہ آج میں دفتر جارہا ہو اور مجھے آنے میں کچھ دیر ہوجائے گی تم ثریا کو لیکر یونیورسٹی چلے جانا ۔۔۔…!!!
جی ابا میں چلی جاؤ گی۔۔۔
آج جمعرات رات کا، دن تھا یوں بھی عموماً طلبا وطالبات کو جمعرات کا، دن بہت پسند ہوتا ہے ۔کیونکہ اگلے دن جمعہ مبارک کا دن ہوتا ہے۔
اس وقت جمعہ کے دن چھٹی ہوا کرتی تھی۔۔!!!ثریا، بھی میرے ساتھ ساتھ بہت خوش تھی ۔ہم دونوں بہت ہی بہترین سا، دن گزارنے کے بعد گھر واپس آگئے ۔اور گھر آتے ہی میں نے کھچڑی چڑھا دی کیونکہ کے ابو نے کہاں تھا باہر سے ہمارے لئے کھانا لیتے آئے گے۔رات کے نو بج گئے ہم دونوں پریشان ہوگئے ۔شمیم انکل کو کال کی ان کے ٹیلی فون اُٹھانے پر معلوم ہوا کہ ابا جان تو آج آئے ہی نہیں تھے۔ہماری پریشانی بے چینی اب دگنی ہوگئی تھی ہم دونوں بس اس عالم میں تھی آیات کریمہ کا، ورد کرنے میں لگ گئے ۔۔۔اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ٹیلی فون اٹھانے میں معلوم ہوا ابا کسی سرکاری ہسپتال میں داخل ہے، ہم دونوں بہن جلدی جلدی بھاگتے ہوئے ہسپتال پہنچے ۔ڈاکٹر نے ہمیں اطلاع دی کے انھیں صبح 10بجے لایا گیا۔ماسٹر صاحب کو فالج ہوا ۔اب قدر بہتر ہیں ۔۔۔۔۔
مجھے اور ثریا کو اس، بات کی خبر بھی نا تھی ہمارے ابا دنیا میں اتنے چاھنے والے لوگ ہیں ۔جب ہم ہاسپٹل سے واپس آرہے تھے۔ابا کے شاگردوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔اور ابا ان کو دیکھ ان سب کو دیکھ کر ایسے جی اٹھے تھے، کہ جیسے ان کی زندگی میں کبھی نشیب سے ہوکر نا گزری ہو ۔ابا جان کو خوش دیکھ کر ہمارے جسم میں جان آگئی ۔۔۔
اور اگلے دن وہ ہی معاملات زندگی شروع ہوگئی۔ہم دونوں کالج کے لیے نکل گئے ۔ہمارے امتحان کے دن بھی رفتہ رفتہ قریب آنے لگے ۔پھر تمام طالب علم کا یہی جی چاہتا ہے کہ اس کے اچھے نمبر آجائے الحمدلله سارے پیپرز ہمارے اچھے ہوگئے ۔اور یوں ہم دونوں امتحانات کے پیپرز سے فارغ ہوگئے ۔۔۔۔
مگر امجد کی محبت دن پہ دن بڑھتی گئی “محبت ایسی شدت ہے کے عشق میں مبتلا ہوجاتی ہے مگر کم نہیں ہوتی”۔ ثریا کو جب اس بات کا، علم ہوا وہ بہت رنجیدہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔ہمیں اس بات کا علم نہ تھا کہ ثریا ہمارے ایک چچازاد کو پسند کرتی ۔اور میرا، کزن واجد بھی ثریا کو پسند کرتا تھا۔مگر ان دونوں کی محبت اس قدر پاکیزہ تھی کہ ہم اس محبت سے بے خبر رہے۔ثریا نے جب گریجویٹ کر لیا تب ثریا نے ابا جان سے ساری باتیں بول دی۔مگر میرے خیال سے یہ ایک بالکل الٹ بات تھی میں سمجھی ابا، کبھی راضی نہیں ہونگے ۔مگر ابا فوراََ مان گئے ۔اور ابا، نے خوشی کا اظہار بھی کیا مگر ابا نے اپنی ایک خواہش ثریا کے سامنے رکھی۔کہ جب ثریا ایم ۔اے کرلے گی تب وہ واجد سے اس کا نکاح کردیں گے۔
مگر ہم سب ایک بات بھول بیٹھے تھے۔ہماری زندگی کے راستے میں ایسے بھی مسافر آجاتے جو سفر کو ایک راستہ بنانا چاہتے ہیں ۔امجد کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس کے دل میں آگ سی لگ گئی ۔امجد کے دوست نے فون کر کے اس کے عزائم کے بارے میں مجھے دوچار کیا۔امجد واجد کو موت کے گھاٹ اٹارنے کی سوچ رہا تھا۔جو کہ ایک ہیبت ناک بات تھی، ایک مہینے کے بعد جب واجد آفس سے واپس آرہا تھا۔امجد نے اس کے پاؤں پر فائرنگ کروائی ۔
ہم جب ہاسپٹل پہنچے ڈاکٹر نے اطلاع دی کہ امجد اب دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ مگر ثریا کو واجد سے محبت اس کی روح سے تھی۔ “ثریا نے کہاں انسان کو اگر سچی محبت ہو تو کبھی بھی منطقی طور پر نہیں سوچتا۔ وہ اسی کا رہتا ہے۔ اس نے ایم مکمل کرنے کے بعد واجد سے نکاح کیا۔ اور ساری زندگی کے لئے اس کی ریڑھ کی ہڈی بن گئی ۔ اور لکچرار بننے کے ساتھ ساتھ اس نے آگے مزید تعلیم بھی حاصل کی۔۔۔۔۔”اصل راستوں کی منزل وہی ہوتے ہیں جو راستے میں ہمیں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاتے، بلکہ راستے کو محبت سے استوار کرتے ہیں ۔