اس معاشرے کا غیر تعلیم یافتہ طبقہ اکثر و بیشتر تعلیم یافتہ طبقے اور اس کی تعلیم کو تربیت میں کمی ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ اس کی وجہ حقیقت کا صحیح سے ادارک نہ کرنا یا کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار ہونا ہے۔ اکثر یہ تبصرے اور باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ تعلیم یافتہ ہونے میں اور تربیت یافتہ ہونے میں فرق ہے۔ وہ تعلیم کس کام کی جو انسان کی تربیت نہ کر سکے۔ ان اداروں میں پڑھ کر کیا کرنا جب یہ تربیت نہیں کر سکتے اور وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب باتیں بھی ٹھیک ہیں لیکن یہاں پر ایک توجہ طلب بات یہ ہے کہ اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں پروفیشنل ادارے ہیں۔ جہاں پر پروفیشنل تعلیم دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم جو کہ بی۔ ایس فا ئنینس کر رہا ہے۔ تو سارا دن یونیورسٹی اس کو کوسٹ اکاؤنٹنگ اور مینیجیرئیل اکاؤنٹنگ سیکھانے میں مصروف ہے۔ ایک طب کا طالب علم سارا دن جس نصاب میں سے گزر رہا ہے وہ ہیومن فزیالوجی اور ادویات پر مشتمل ہے۔ ایک کیمیکل انجینئر کو ادارے میں کیمکل پلانٹ کیسے چلایا جاتا اس کے متعلق تعلیم اور سکلز دیے جارہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کو ایک بہتر انسان بنانے کے لیے اور تربیت دینے کے لیے قرآن اور حدیث پڑھائی جا رہی ہے یا شیخ سعدی کی حکایات سنائی جا رہی ہیں۔ اس طرح ایک انسان سے یہ توقع کرنا کہ وہ ریاضی کی کتاب پڑھے گا اور سچ بولنا سیکھ جائے گا۔ سائنس کی کتاب پڑھنے سے اس میں ایمانداری، عہد کی پابندی اور شائستگی جیسی خوبیاں پیدا ہو جائیں گی۔ تو اس قسم کی توقعات بلاشبہ ایک حماقت ہے۔
پروفیشنل ادارے انسان کو پروفیشنل تعلیم اور سکلز سیکھا سکتے ہیں۔ ان میں پروفیشنل عادات جیسا کہ وقت کی پابندی کرنا، پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن انسان کو تربیت یافتہ بنانے کے لیے ان کی تربیت کرنا ضروری ہے۔ اس تربیت کی سب سے بڑی ذمہ داری دین الہٰی نے والدین پر ڈالی ہے نا کہ اساتذہ اور اداروں پر۔ لیکن والدین نے یہ سمجھ لیا ہے کہ چونکہ ہم بہترین اداروں میں اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں، بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں تو تربیت کا بیڑا بھی انہی اداروں کو اٹھانا چاییے۔ والدین کی ذمہ داری تو صرف اچھے پروفیشنل ادارے کا انتخاب اور تعلیمی اخراجات پورے کرنا ہے۔ لیکن اگر پروفیشنل تعلیمی ادارے طلبہ کی تربیت کا بندوبست بھی کر رہے ہیں تو یہ والدین کے ساتھ ایک تعاون ہے۔ اس تعاون کی دستیابی سے والدین پر عائد ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی۔ آپ کا بچہ ایک وکیل ہے اور اس نے ادارہ ہذا سے وکالت کی ڈگری اور تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کی غلط تربیت کا ذمہ دار اس کی ڈگری کو قرار دینا یا تعلیمی ادارے پر تنقید کرنا سراسر اپنی ذمہ داری سے جی چرانا ہے۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انسان تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ نہ ہو تو وہ ایک عمدہ اور بہترین انسان نہیں بن سکتا۔ لیکن پروفیشنل تعلیم کو تربیت کا ذریعہ بنانا ایک غلط سوچ ہے۔ اس کے لیے والدین پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اولاد کی تربیت کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہر وقت اپنی اولاد کی تربیت کے لیے فکر مند اور دعاگو رہتے تھے۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ یوں ہے :
“یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ( علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ اس شہر (مکہ) کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا.” (سورت ابراہیم: آیت 35)