منشیات ایک ایسا میٹھا زہر ہے جو انسان کو دنیاو آخرت سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اس کو استعمال کرنے و الا ہر شخص حقیقت سے فرار حاصل کرتا ہے اور خیالوں میں بھٹکتا ہے۔منشیات کا نشہ پہلے پہل ایک شوق ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ ضرورت بن جاتا ہے۔ نشے کاعادی شخص درد ناک کرب میں لمحہ لمحہ مرتا ہے۔ اس کی موت صرف اس کی نہیں ہوتی بلکہ اس کی خوشیوں کی خواہشات کی تمناؤں کی بھی موت ہوتی ہے۔
کوئی اگر نشہ کرنا شروع کرتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ،کوئی واقعہ، مایوسی، محرومی اور ناکامی کا کوئی پہلو ہوتا ہوگا۔پر انسان یہ کیوں نہیں سوچتا کہ مایوسی اور ناکامی کا علاج صرف نشہ کرنا نہیں۔ بلکہ نشہ انسان کی صحت کے لیے زہر ہے منشیات کی عادت ایک خطرناک مرض ہے۔ یہ خود انسان کو اور اس کے گھربار کو معاشرے اور پورے ملک و قوم کو تباہ کر دیتا ہے۔ اگر ایک بار کوئی نشہ کرنے کا عادی ہوجائے تو وہ پھنستا ہی جاتا ہے۔اور پھنسے کے بعد اس کے مضر اثرات کا انہیں ادراک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھائی جاری ہے، لیکن اس کے باوجود اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
آخر کیوں؟ہمارے معاشرے میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان اور نفسیاتی مسائل کسی سنگین خطرے سے خالی نہیں۔ منشیات کا نشہ ایک ایسی لعنت ہے جو سکون کے دھوکے سے شروع ہوتی ہے اور زندگی کی بربادی پر ختم ہوجاتی ہے۔ منشیات کی لعنت صرف ہائیر تعلیمی اداروں اور ہائیر سوسائٹی میں ہی نہیں بلکہ جگہ جگہ ایک فیشن کے طور پر سامنے آرہی ہے۔گاؤں کھیڑے کے بچے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ جس کے انتہائی مضر اثرات نمایاں نظر آرہے ہیں۔ راہ چلتے چھوٹے بچے بھی سگریٹ کا دھواں اڑاتے دیکھائی دیتے ہیں۔اکثر بچے اور نوجوان والدین کی غفلت اور ان کے رویہ کی وجہ سے نشے کی عادت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
والدین اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ وقت اپنے بچوں کو بھی دیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔کہاں جاتے کس سے ملتے ہیں۔ بعض مرتبہ تو غلط صحبت ملنے سے نشے کے عادی ہوجاتے ہیں۔کئی اپنے مسائل سے ڈر کر اور کئی حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لئے بھی نشہ کا سہارا لیتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نوجوان نسل فیشن کے طور پر سگریٹ یا دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال شروع کرتی ہے پھر یہ فیشن یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت بن جاتا ہے اور اس طرح وہ شخص مکمل طور پر نشے کاعادی بن جاتا ہے اورپھر اس کے دل و دماغ کو مکمل تباہ و برباد کردیتا ہے۔
پھروہ شخص ہر وقت نشے میں مدمست رہتا ہے۔ اور اس کو پورا کرنے کے لئے ہر وہ غلط کام کرنے لگتا ہے جہاں سے پیسے حاصل کرسکے۔ اور اس طرح اچھا بھلا تندرست صحت مند انسان اپنی زندگی کو تباہی کی دہلیز پر لا کر کھڑا کرتا ہے۔پوری دنیا منشیات کے خوفناک زہر کے حصار میں ہے۔ نئی نسل اپنے تابناک مستقبل سے لا پرواہ ہوکر تیزی کے ساتھ اس زہر کو مٹھائی سمجھ رہی ہے۔ اور کھائے جارہی ہے۔سگریٹ اور شراب پیتے ہوئے لوگوں کو دوستوں کو دیکھ کر دل مچل جاتا ہے۔جو نوجوان نسل کو تباہ کر رہا ہے ان کی زندگی کو اندھیرے میں ڈال کر ان کی جوانی کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر رہا ہے۔معاشرے کا حساس ، تعلیم یافتہ اور باشعور حصہ ہونے کے ناطے شہر کے مختلف علاقوں بالخصوص اندرون لاہور اور اس سے ملحقہ آبادیوں میں نشے کے عادی بدبخت افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔
نشے کے ہاتھوں گلی بازاروں میں اشرف المخلوقات کی اس قدرذلت، بے توقیری اور بے حرمتی شرمندگی سے میرا سر اٹھنے نہیں دیتی۔سوچتا ہوں نوجوانوں میں نشے کا زہر گھولنے اور معاشرے کو مفلوج کرنے والوں پر نظر رکھنے اور گرفت کرنے والے ارباب اختیار خود کہاں جا کر سو گئے ہیں؟ عمارتوں کے باہر پڑے نشے کے عادی افراد سے بات کی تو انہوں نے مکروہ کاروبار کرنے والے معاشرے کے بچھوئوں کا نام پتہ تک بتادیا۔لیکن محافظ اور نگہبان قانون نافذ کرنے والے ادارے اندھے اور اپاہج بنے بیٹھے ہیں یا پھر وہ بھی معاشرے کے ان مکروہ عناصر کا حصہ بن گئے ہیں جنہیں صرف اپنا مفاد عزیز تر ہے۔