کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (KESC) اپنی نجکاری 2001ء کے بعد مفاد پرست ٹولے کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ حالیہ برسات میں اس کی ناقص کارکردگی کھل کر سامنے آگئی ہے اور معصوم شہریوں کی کرنٹ لگنے سے جو اموات واقع ہوئی تھیں اس کی ذمہ داری بھی کے-الیکٹرک کے اعلیٰ عہدیداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اس گھمبیر مسئلے کو دیکھتے ہوئے محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب گلزار احمد صاحب نے از خود نوٹس لیتے ہوئے اس اہم مقدمے کی سماعت کراچی رجسٹری میں کی تھی اور کے-الیکٹرک کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے NEPRA کے ذریعے سے کروڑوں روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔
درحقیقت کے-الیکٹرک 2001ء سے قبل وزارت پانی و بجلی کے زیر اہتمام ایک خود مختار ادارے کی حیثیت سے خوش اسلوبی سے چل رہا تھا KESC کی نجکاری میں سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور MQM کے رہنما ملوث تھے۔ کے-الیکٹرک کی تباہی و بربادی میں ساری نامور شخصیات ملوث ہیں۔ کے-الیکٹرک کی تباہی و بربادی کی ذمہ داری سے سابقہ CEO اور چیئرمین عارف نقوی جو کہ اس وقت امریکہ میں زبردست فراڈ کے الزام میں لندن میں گرفتار ہو کر جیل میں پڑے ہوئے ہیںاور وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کو جیل سے مخصوص ذریعوں سے پیغامات وزیر اعظم ہائوس بھجوا رہے ہیں کہ وہ برطانوی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے انہیں امریکی حکام کے حوالے کرنے سے بچا لیں اگر انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تو وہ ساری زندگی فراڈ، کرپشن اور دھوکہ دہی کے الزامات میں جیل سے باہر نہ آسکیں گے۔
ان کے یہ خصوصی پیغامات موجودہ CEO مونس الٰہی علوی کے ذریعے متعلقہ افراد کو پہنچائے جا رہے ہیں۔ دراصل عارف نقوی ایک انتہائی عیار اور چالباز شخص ہے 25 جولائی 2018ء کے پاکستان کے جنرل الیکشن میں کراچی سے وزیر اعظم عمران خان بمعہ 14 اراکین پارلیمنٹ قومی و صوبائی اسمبلی میں انتخابات جتوانے کے لئے بے دریغ رقم خرچ کی تھی اور عمران خان صاحب کے وزیر اعظم بننے کے بعد دو مرتبہ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے والے سابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے 2019-20ء میں ٹوٹل 38 ارب روپے کی سبسڈی دلوائی تھی اس رقم کے استعمال کا آج تک پتہ نہیں چلا۔ مونس الٰہی علوی موجودہ CEO چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں اور اعداد و شمار کی جعلسازی کے ماہر ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی رقم کیا کرپشن کی نذر ہو گئی ہے؟ راقم الحروف نے اپنے کالم میںکے-الیکٹرک کی 11 سال کی فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کیا ہے جو کہ مورخہ 28-08-2020 کو روزنامہ اوصاف میں شائع ہوا ہے۔ (کالم کی کاپی ثبوت کے طور پر منسلک ہے)
مورخہ 02-09-2020 کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وفاقی مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کے-الیکٹرک کے لئے نہ صرف 4 ارب روپے کہ سبسڈی منظور کی ہے بلکہ بجلی کے نرخ بڑھانے کی کے-الیکٹرک کی درخواست بھی منظور کر لی ہے جو کہ ستمبر 2020ء اور اکتوبر 2020ء میں کراچی کے مظلوم عوام سے وصول کئے جائیں گے۔ دراصل اس سارے معاملے کے پیچھے گورنر سندھ عمران اسماعیل، وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزراء، اسد عمر، سیّد علی حیدر زیدی اور فیصل وائوڈا کا ہاتھ ہے۔ کراچی کے مظلوم عوام کے-الیکٹرک کے بلوں کے ہاتھوں تباہی و بربادی کا شکار ہے سونے پر سہاگہ بجلی کے نرخ مزید مہنگے کرکے رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی۔
اس وقت کراچی کے مظلوم عوام کی نظریں محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ ان سے مودبانہ گزارش و اپیل ہے کہ وہ ازخودنوٹس لیتے ہوئے کے-الیکٹرک کی 4 ارب روپے کی سبسڈی اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے فیصلے جو اقتصادی رابطہ کمیٹی نے مورخہ 02-09-2020 کو ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں منظور کیا ہے اسے فوری منسوخ کرنے کا حکم جاری فرمائیں۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وفاقی مشیر خزانہ کے عہدے سے بھی برطرف کر دیا جائے۔ کراچی کی مظلوم عوام ممنون و مشکور ہوگی۔