اقتدار کسی بھی معاشرے میں امن،تہذیب،تمدن،عدل و انصاف،استحکام قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ دو سال پہلے ہی کی بات ہے۔جب عوام کو سبز باغ دکھائے گئے تھے۔مدینہ جیسی اسلامی ریاست کی تعمیر و تشکیل کے،عدل وانصاف کی حکمرانی کے، امن ترقی وخوشحالی کے، کشکول توڑنے، 50 لاکھ گھر،نوکریاں دینے کے، ملک دشمن عناصر کے آگے نہ جھکنے،نہ دبنے کے، ملک کو لوٹنے والوں کا احتساب، مجرموں کو پھانسی پر لٹکانے کے دعوے، وعدے کئے گئے تھے۔
عوام نے خوش ہوکر ہینڈسم وزیراعظم کو سرآنکھوں پر بٹھایا۔امن وسکون کے خواب دیکھے تھے۔
لیکن وہ وعدے سب سراب ثابت ہوئے۔ قوم کو سانحات در سانحات پیش آئے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے۔”جب امانتیں نااہلوں کے سپرد کی جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔”بخاری۔۔
معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات متواتر ہورہے ہیں۔کہ موٹر وے پر خاتون،بچوں پر ظلم و زیادتی نے دل دہلا دیا ہے۔۔اور پھر پولیس کے اعلیٰ افسران کا مظلوم خاتون کو قصور وار ٹھرانا،پولیس کی میرٹ پر تعیناتی،انصاف پر سوالیہ نشان ہے۔
ابھی سانحہ ساہیوال بھی ذہنوں سے فراموش نہی ہوا۔
ٹڈی دل سے فصلوں کی تباہی،بارشوں سے شہر ،دیہات کا ڈوبنا۔لوگوں کا بے گھر ہونا،مہنگائ،۔۔کہا گیا قدرتی آفات کا مقابلہ نہی کیا جاسکتا۔۔
لیکن ان افات،خدا کے قہر و غضب کو دعوت دینے سے بچنے کے لئے فیصلے،اقدامات تو کئے جاسکتے ہیں۔
میڈیا پر تقریبا 80،90 چینلز۔۔ان پر فحش مواد،ڈرامے،اشتہارات،موویز۔،۔خدا کے غضب کو دعوت دیتی اس بے حیائ کو تو روکا جاسکتا ہے۔
انٹرنیٹ پر فحش ویڈیوز پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔
ریاست کی زمہ داری ہے۔عوام کو تعلیم،صحت،روزگار،امن ،۔ تحفظ فراہم کرنا۔لیکن ریاست اسمیں ناکام ہے۔
میڈیا،انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلائی جانے والی بے حیائ،بے راہ روی،بد اخلاقی کو روکا جائے۔۔اور ملک سے لٹیروں، ڈاکوؤں کی رٹ ختم کرکے،بچوں، خاتون سے ذیادتی کے مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔۔
تاکہ آئندہ ایسے جرائم کا تدارک ہوسکے۔ بچیوں،خواتین کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
اب ایک ایک پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے۔کس کو مسند اقتدار پر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
پاکستان کو ایسے مخلص،اہل دل فقیروں کی ضروت ہے۔جو اپنے نفس کے بندے نہ ہوں،اقتدار کو غیروں کی غلامی میں سونپنے والے نہ ہوں۔بلکہ اقتدار کی قوت سے اسلام کے سنہری اصول،قانون،عدل وانصاف،امن قائم کرنے والے ہوں۔اسی میں عوام کی عزت و عصمت محفوظ ہوگی۔امن،خوشحالی،بقاء اسلامی نظام میں مضمر ہے۔اسی کے لئے جدوجہد لازم ہے۔
خدا بھی اس قوم کی حالت نہی بدلتا
جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو