ہم اکثر جگہوں پر اسٹیکرز لگے دیکھتے ہیں، کہیں اردو میں کہیں انگریزی میں لکھا ہوتا ہے، کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے ۔۔۔ یہ عمارت CCTV کیمروں کی زیر نگرانی ہے وغیرہ وغیرہ۔ چاہے وہ شاپنگ سینٹر ہو ڈپارٹمنٹل اسٹور ہو پیٹرول پمپ ہو یا دیگر پبلک پلیسز۔ یہ جملہ دیکھ کر پڑھ کر عجیب سا محسوس ہوتا ہے کہ جب ایک چیز لگادی گئ ہے تو اس کی تشہیر کا کیا فائدہ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ اگر یہ اسٹیکرز نہ موجود ہوں تو اس کو لگانے والے باآسانی ان افراد کو پکڑ سکتے ہیں جو غلط کام کرتے ہوئے کیمرے کی زد میں آجائیں۔
لیکن ان اسٹیکرز کا مقصد یہ ہوتا ہے کی اگر کوئ شخص غلط کام کرنے کا سوچ رہا ہے تو اس کو جان لینا چاہئے کہ وہ کیمرے کی مدد سے باآسانی پکڑا جاسکتا ہے۔ اب یا تو وہ غلط کام کرنے کا ارادہ ترک کردے یا پھر ایسا کچھ کرے کہ وہ اس کیمرے کی زد میں نہ آئے اور تیسری صورت بلا خوف غلط کام کرلیا جائے۔۔۔۔۔ یوں پہلی سوچ کی وجہ سے کیمرہ لگانے والے کسی بھی نقصان سے بچ سکتے ہیں دوسری صورت مشکل ہے کہ کیمرے کی آنکھ سے بچا جسکے لیکن اگر کیمروں کی رینج کا پتہ ہو تو یہ کام بھی ممکن ہے۔تیسری صورت میں صد فیصد یقینی امر ہے کہ جلد یا بدیر اس غلط کام کرنے والے کو پکڑ لیا جائے گا اور سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔
پس یہ ثابت ہوا کہ ان اسٹیکرز کی مدد سے صرف پہلی صورت میں ہی بچے ہوسکتی ہے دوسری اور تیسری صورت میں بہرحال نقصان کا ہی نقصان ہے۔ دوسری صورت سے بچنے کے لئے ہمیں کیمروں کی رینج بڑھانا ہوگی اور تیسری صورت کے لیے ہمیں ان جرائم کی سزاؤں کی تشہیر اور عمل درآمد کرنا ہوگا تکہ عبرت کا باعث ہو اور لوگ ان جرائم کو کرنے کا سوچتے ہوئے بھی کانپ اٹھیں۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں ان اسٹیکرز کی تشہیر کی مدد سے جرم کا سوچنے والا شخص جرم کرنے سے بچ سکتا ہے اور یہ اسٹیکرز لگانے والا نقصان سے۔ بچپن میں انسان اس خوف سے وہ کام جن کو کرنے سے منع کیا جاتا ہے وہ نہیں کرتا کہ والدین کو پتہ چل گیا تو کیا ہوگا یا میں انہیں کیا جواب دوں گا اس سوچ میں دو محرک ہوتے ہیں ایک تو اپنے والدین سے محبت احترام اور دوسرا ان کی ناراضگی غصہ کی صورت میں سزا کا احساس۔
کیمروں اور والدین والے معاملات میں ایک نقطہ اہم ہے کہ اگر کیمرہ ہمیں captureکرے یا والدین ہمیں دیکھ لیں یا انہیں پتہ چل جائے تو یہ سزا کا باعث ہوگا۔
لیکن اگر ہم یہ تصور کریں کہ ایک کیمرہ ہر وقت ہماری مووی بنا رہا ہے ہمارا ہر ہر عمل اس کیمرے کی آنکھ میں مقید ہورہا ہے۔۔۔ صبح سے لیکر شام تک اور شام سے لیکر صبح تک ہر ہر کام کی مووی بن رہی ہے چاہے ہم تنہا ہو یا محفل میں ہر وقت کی مووی بن رہی ہے اور یہ مووی یہ فلم یہ ویڈیو ہمارے والدین یا ہمارے چاہنے والوں یا ان کو جو غلط کاموں پر سزا دے سکتے ان تک پہنچ جائے گی یا ابھی بھی وہ دیکھ رہے ہیں تو کیا اس صورت میں کوئ غلط کام کرنے کا مرتکب ہوگا؟ یقینا وہ ایسا سوچنے کا بھی نہیں سوچے گا۔ کیوں کہ آحر وہی تینوں محرکات میں سے دو کا سوچیں کہ کیا اس کیمرے سے بچ سکتے ہیں تو یہ نا ممکن ہے کہ ہم اللہ سے بچ سکیں تیسرا کیا ہم اس قہار و جبار کی سزا سے بچ سکتے ہیں جو تو یہ یہ بھی ناممکن ہے۔
درحقیقت یہ احساس اجاگر کرانے کی ضرورت ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک وہ بزرگ و برتر ہستی وہ خالق کائنات وہ الہ العالمین جسے سب خبر ہے جو سب جانتا ہے جو سمیع و بصیر ہے جو ہر چیز پر قادر ہے وہ ہماری ہر ہر move پر نظر رکھتا ہے۔ اگر یہ احساس ہوجائے کہ ہم نے مرنے کے بعد اس خالق و مالک کو جواب دینا ہے تو ہم اس ختم ہونے والی عارضی زندگی کو بھی بہترین بنا سکتے ہیں اور ہمیشہ کی نا ختم ہونے والی اخروی زندگی کو بھی۔
وہ رحمن و رحیم جو ماؤں سے بھی 70 گنا زیادہ پیار کرتا ہے کیا ہم چاہیں گے کہ اس چھوٹی سی زندگی کے چھوٹے چھوٹے مزوں کے لئے چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لئے اس رحیم آقا کو ناراض کردیں اور اس کے غیظ و غضب کا باعث بنائیں۔
آج اگر ہم واقعی پانچ وقت نماز میں پڑھنے والی آیات کو کہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا ان لوگوں کے راستے پر جن پر تونے انعام فر مایا جو معتوب نہیں ہیں جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ان پر عمل پیرا ہوں تو کوئ وجہ نہیں کہ ہمیں کہیں کوئ زنا کوئ بد کاری کوئ معصوم بچیوں سے زیادتی کوئ رشوت کوئ براکام کوئ شراب کوئ سود کوئ جھوٹ کوئ غیبت کوئ بدعت کوئ شرک کوئ ڈاکہ کوئ چوری نظر نہیں آئے گا بلکہ اللہ کے سامنے جوابدہی کا سوچ کر انسان اپنا اگلا قدم بھی رکھتے ہوئے سوچے گا کہ کہیں میری پیر کے نیچے کوئی چیونٹی تو نہیں آرہی جسکا مجھے جواب دینا پڑے گا اور اسی صورت میں واقعتا اسلامی فلاحی معاشرہ کا وجود عمل میں آئے گا۔۔۔۔
تو آئیے ہم مل کر عزم کے ساتھ کوشش کریں کہ صحیح معنوں میں اسلام کو اپنی زندگیوں میں لائیں گے خود بھی اس پر عمل کریں گے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین و تاکید کریں گے۔