ات پیش تو ایک فرد کے ساتھ آتے ہیں لیکن اس کے اثرات پوری قوم کے ہر حساس فرد کے اعصاب شل کردیتے ہیں۔ ابھی کراچی کی مروہ کی موت کا گھاؤ مندمل نہیں ہو پایا تھا کہ موٹروے پر سیالکوٹ کے قریب سفر کرتی ایک ماں وحشیوں کے ہتھے چڑھی اور اسے بھنبوڑ ڈالا گیا۔
یہ واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں لیکن اس کے مقام اور بچوں کی موجودگی میں درندگی کے مظاہرے نے شاید اسے توجہ کا مرکز بنایا اور ہر طرف سے مذمت اور افسوس کی صدائیں بلند ہونے لگیں ہیں لیکن حسب روایت چند دن کے شوروغوغا کے بعد اس واقعے سے پیدا ہونے والا ہیجان و اضطراب بھی حالات اور دیگر واقعات کی دھول میں دھندلا کر لاشعور میں ایک انجانا خوف چھوڑ کر ختم ہو جائے گا۔
قصور کی زینب، کراچی کی مروہ ہو یا سیالکوٹ کی متاثرہ خاتون ، توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اشرف المخلوقات کہلانے والا انسان چوپایوں سے بھی بدتر کیونکر ہوجاتا ہے اور اس کا تدارک کیونکر ممکن ہے؟
سوچنا چاہئیے کہ جنسی بے راہ روی کی نہ تو مذہبی طور پر اجازت ہے نہ ہی ہمارے معاشرے میں اسے قبولیت حاصل ہے لیکن پھر بھی اس منفی رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ کیوں ہورہا ہے اور اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے کیا تدبیریں اپنائی جا سکتی ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کو اگر کوئی چیز حد میں رہنے اور منفیت سے باز رکھنے کا باعث ہوسکتی ہے تو وہ سخت ترین قوانین اور ان قوانین پر فوری عملدرآمد کا خوف ہی ہوتا ہے، اصولی طور پر ریاست کو مجبور کیا جانا چاہئیے کہ صنف نازک کو یوں مسل کر رکھ دینے والوں سے ہمدردی ترک کرکے جنسی زیادتی کے ہر مجرم کو موت کا حقدار ٹھہرایا جائے۔ قانون سازی کی جائے کہ جنسی زیادتی کے کسی بھی واقعے کے ملوث افراد کو پولیس بہر صورت ایک مقررہ وقت میں گرفتار کرے گی اور ناکامی کی صورت میں متعلقہ پولیس افسران کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
مزید یہ کہ والدین اور اساتذہ بچوں اور بچیوں کی ذہنی بڑھوتری اور انھیں خطرات سے آگاہ رکھنے اور خطرے کی صورت میں فوری ردعمل کے بارے میں آگاہی دیں تب جاکر شاید انسان کے بچوں کو انسانیت سکھائی جاسکے ورنہ وحشیانہ رویے یوں پروان چڑھیں گے کہ درندے بھی پناہ مانگیں گے۔
اس واقعے کا ایک اور توجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ متاثرہ خاتون کو جس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور کسی بڑے المیے نے ابھی جنم نہیں لیا تھا اس وقت ایک صاحب (نام نہیں لکھ رہا کہ ہتک ہوگی) جو خود بھی اسی راستے کے مسافر تھے ، جب وقوعے پر پہنچے اور خاتون نے ان سے مدد مانگی تو انھوں نے خود یا راہ چلتی باقی گاڑیوں کو روک کر حالات کا مقابلہ کرنے اور متاثرہ خاتون کا دفاع کرنے کے بجائے عافیت اس میں جانی کہ خود کو تنازعے میں نہ ڈالے اور خموشی سے گھر کی راہ لی۔
معاشرے کے ہر فرد کو نہ صرف اس طرح کے واقعے بلکہ ہر مظلوم پر ہونے والے ظلم کی روک تھام کا موقع پر انتظام کرنے کی ہمت کرنی چاہئیے ورنہ تو کوئی بعید نہیں کہ کسی دن ہم یا ہماری کوئی عزیز ہستی بچاؤ کے لیے چلاتی رہے اور لوگ اسے دوسرے کا مسئلہ سمجھ کر منہ موڑ کر چلتے چلیں جائیں۔
مذکورہ واقعے اور ذمے دار اداروں کی غفلت پر میرے کچھ اشعار:
بھلا وہ کیسے کریں گے علاج ۔۔۔ کتوں کا
جنھوں نے خود بھی ہے پایامزاج کتوں کا
جہاں بھی ہاتھ جو آئے بھنبھوڑ لو اس کو
بشر کے روپ میں قائم سماج ۔۔۔ کتوں کا!
سڑک کنارے یوں عصمت دری سے لگتا ہے
ہمارے دیس میں قائم ہے راج ۔۔۔ کتوں کا!
ہے تخت و تاج سلامت، مراعتیں قائم !
کوئی تو بولے ہے کیا کام کاج ۔۔۔ کتوں کا
میں عام فرد ، مرا کل بھی ڈر کا مارا تھا
اور آج بھی وہی حالت کہ آج ۔۔۔ کتوں کا