حضرت آدمؑ کو سجدہ نہ کرنے پر ابلیس کو جنّت سے نکالنے کا حکم دیا گیا، تو اُس نے اللہ تعالیٰ سے انسانوں کو گم راہ کرنے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی، جو اُسے دے دی گئی۔ اُس نے کہا
“اے اللہ! تیری عزّت کی قسم! مَیں ان (آدمؑ ؑ اور اس کی اولاد) سب کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا۔ (سورہ ص)۔”
حضرت آدمؑ اور حضرت حوّا، ؑ جنّت میں زندگی بسر کر رہےتھے کہ ایک دن اچانک شیطان اُن کے پاس پہنچ گیا۔ اُس کا مقصداُنھیں بے پردہ کرنا تھا، جس میں وہ کام یاب ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے
“پھر شیطان نے اُن کے دِلوں میں وَسوسہ ڈالا تاکہ وہ اُن کی شرم گاہوں کو بے پردہ کر دے، جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں (اعراف )۔”
یعنی ابلیس نے جو کام سب سے پہلے کیا، وہ انسان کو بے پردہ کرنا تھا، جسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا
“اور جب اُنہوں نے (شیطان کے کہنے پر ممنوع) درخت کا مزہ چکھ لیا، تو اُن کی شرم گاہیں کُھل گئیں اور اُنہوں نے (مارے شرم کے) جنّت کے پتّوں سے اپنے تن ڈھانپنے شروع کر دیے (اعراف)۔”
اب شیطان کا نشانہ اولاد ِ آدمؑ تھی، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اُس کی مکروہ چالوں کو بے نقاب کرتے ہوئے خبردار فرمایا
“اے بنی آدمؑ! (دیکھنا) شیطان تمہیں کہیں فتنے میں نہ ڈال دے، جیسے اُس نے تمہارے والدین کو جنّت سے نکلوا دیا تھا اور اُن کے کپڑے اتروا دیے تھے تاکہ اُن کے ستر ظاہر کردے۔ وہ اور اس کے چیلے، تمہیں دیکھتے ہیں اور تم اُنہیں نہیں دیکھتے(اعراف)۔‘‘
بے پردگی شیطان کی پہلی ترجیح:
تمدّنی ارتقا کے ابتدائی مراحل سے آج تک، شیطان اور اُس کے چیلوں کی پہلی ترجیح دنیا میں عریانی، فحاشی اور بے حیائی عام کرنا ہے اور وہ اپنے اس مذموم مقصد میں کسی حد تک کام یاب بھی رہے۔ مثلاً اہلِ یونان پر نفس پرستی اور شہوَت کا اِس قدر شدید غلبہ تھا کہ اُن کے یہاں زنا اور فحاشی کو قابلِ فخر سمجھا جاتا۔ نوبت یہاں تک آئی کہ وہ قومِ لوط کے عمل کی پیروی کی بنا پرقہرِ الٰہی کا شکار ہوئے۔ اہلِ روم کا حال بھی یونانیوں سے کم نہ تھا کہ جہاں بے حیائی نے مَرد اور عورت کی تمیز ہی ختم کر دی تھی اور پھر وہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ اس حوالے سے تاریخ کا مطالعہ کریں، تو کئی معاشروں میں عورت ایک ایسی شئے نظر آتی ہے کہ جیسے اس کا کام صرف مَرد کی نفسانی خواہشات کی تکمیل ہو۔ اسی طرح، ظہورِ اسلام سے پہلے عرب معاشرہ بھی جنسی بے راہ رَوی اور بے حیائی کے دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔
اسلام دینِ فطرت ہے، جس نے عورت کو شیطان کی مکروہ چالوں سے محفوظ کیا اور اسے ذلّت و بے حیائی کے دلدل سے نکال کر عزّت و احترام کے اعلیٰ مقام پر بٹھایا۔نیز، اسے خُوب صورت، نازک آبگینے قرار دیا۔ عورت اَن مول موتی کی طرح ہے، جس میں شرم و حیا مَردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے اور یہ ہی شرم و حیا، دینِ اسلام کی پہلی ترجیح ہے، جس کے بارے میں بنی کریمؐ نے فرمایا ’’جب تم حیا نہ کرو، تو پھر جو چاہے کرو( سنن ابی داؤد)۔‘‘ اسلام نے مَرد اور عورت کے فطری تقاضوں کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے ان کے دائرۂ کار متعیّن کیے ہیں۔ عورت کو ” گھر کی ملکہ” قرار دیتے ہوئے اُسے آنے والی نسلوں کی تربیت جیسی اہم ذمّے داری سونپی، تو معاش اور دیگر بیرونی معاملات کا ذمّے دار مرد کو قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی عورت کو ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دیتے ہوئے پردے (حجاب) میں رہنے کا حکم دیا تاکہ ازلی دشمن شیطان اور اس کے چیلوں کی ہَوس ناک نگاہیں اُس کی پاکیزگی کو میلا نہ کر سکیں۔
پردہ ہر عورت اور مرد پر لازم ہے۔ عورت اور مرد کے جسم کا کتنا حصّہ پردے میں رہنا چاہیے؟ اسلام نے دونوں کی جسمانی ساخت، تخلیقی فرق، فطرت و جبلت اور عملی و ذہنی قوّت و صلاحیت کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے اس کی حدود متعیّن کر دی ہیں۔ مثلاً عورت کا اپنے جسم کو اس طرح چُھپا لینا کہ اُس کا بدن اور زینت اجنبی مَردوں پر ظاہر نہ ہوں، پردے کی تعریف میں آتا ہے۔ اسی طرح، مَردوں کو حکم ہے کہ اپنا جسم ناف سے لے کر گھٹنوں تک چُھپائیں۔ اب عورت پردہ چاہے عبایا لے کر کرے یا برقعہ پہن کر، یا پھر چادر اوڑھ کر، مقصد پورے جسم کو چُھپانا ہے اور یہ ہی عورت کا پردہ ہے۔ صرف ڈیڑھ گز کپڑے کے ٹکڑے سے سر کو ڈھانپ لینا، پردے کے زمرے میں نہیں آتا۔
پردے کا پہلا حکم، 5 ہجری میں اُس وقت آیا، جب رسول اللہ ؐ کی دعوت پر حضرت زینب بنتِ حجشؓ کے ولیمے میں طعام کے بعد کچھ صحابہؓ دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ آپؐکو اس سے خاصی تکلیف ہوئی، تاہم حیا اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے اُنہیں جانے کو نہ کہا (بخاری)۔‘‘ نزول کی دوسری وجہ سیّدنا عُمر ؓ کی وہ خواہش تھی کہ جب اُنھوں نے عرض کی’’ یارسول اللہؐ! آپؐ کے پاس اچھے، بُرے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ کاش، آپؐ امہات المومیننؓ کو پردے کا حکم فرمائیں، تو کیا ہی اچھا ہو (بخاری)۔‘‘ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی’’ اے ایمان والو! نبیؐ کے گھر میں بِن بلائے مت جایا کرو اور نہ کھانے کے انتظار میں بیٹھے رہا کرو۔ ہاں، جب تمہیں کھانے کے لیے بلایا جائے، تب جایا کرو اور کھانا کھا کر فوراً اٹھ جایا کرو، باتوں کے لیے مت بیٹھے رہا کرو، اس بات سے نبیؐ کو تکلیف ہوتی ہے، مگر وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں، لیکن اللہ حق بات میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا اور جب نبیؐ کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو، تو پردے کے باہر سے مانگا کرو۔ تمہارے اور ان کے دِلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ یہ ہی ہے (احزاب )۔‘‘ پردے کے پہلے حکم پر مشتمل یہ آیت’’آیتِ حجاب‘‘ کہلاتی ہے۔ اس کے فوراً بعد اللہ نے پھر وحی نازل فرمائی’’اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے اوپر اپنی چادروں کے پَلّو لٹکا لیا کریں۔ یہ اَمر ان کے لیے موجبِ شناخت (و امتیاز) ہوگا، تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا(احزاب )۔‘‘ اس حکم کے فوراً بعد تمام ازواجِ مطہراتؓ اور مسلمانوں کے گھروں میں پردے لٹک گئے۔ عورتوں کے پردے سے متعلق سات آیاتِ مبارکہ نازل ہوئیں، جن میں سے چار سورۂ احزاب اور تین سورۂ نور میں شامل ہیں۔ اس کےعلاوہ، 70 سے زیادہ احادیثِ مبارکہ میں عورتوں کے پردے سے متعلق احکام اور تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
پردے کے احکام کا مطالعہ کریں، تو یہ واضح مقاصد نظر آتے ہیں۔انسان اشرف المخلوق ہے اور پردے کا مقصد، اُس کے اِس شرفِ انسانی کی حفاظت کرتے ہوئے اسے حیوانی طرزِ زندگی، مادر پدر آزاد، مخلوط معاشرے، جنسی آوارگی، شہوت پرستی، بدکاری و بے حیائی سے تحفّظ دے کر پاکیزہ ماحول فراہم کرنا ہے۔عورت اور مَرد گاڑی کے دو پہیے ہیں، لہٰذا عورتوں اور مَردوں کے مکارمِ اخلاق اور شخصی عزّت و احترام کو مکمل طور پر محفوظ کردیا جائے تاکہ دونوں شرعی احکام کی روشنی میں پاکیزہ خاندان کی بنیاد رکھ سکیں۔ اسلام نے مرد اور عورت، دونوں کی حدود مقرّر کردی ہیں۔ پردہ دونوں کے جداگانہ دائرۂ عمل کو اس طرح تحفّظ فراہم کرتا ہے کہ دونوں اپنے مقرّر کردہ امور بہ خُوبی انجام دیں اور دنیا میں سرخ رُوی کا باعث بنیں۔ گھر، خاندان، عزیز و اقارب اور ہم سایوں کے درمیان ایک مضبوط، پُرامن اور محفوظ نظام کی بنیاد رکھ دی جائے، جس سے ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے۔ جہاں ایک دوسرے کا احترام، عزّتِ نفس اور حقوق و فرائض کی بجا آوری بہتر طریقے سے ممکن ہو۔اس کے برعکس، جب کسی معاشرے میں بے پردگی عام ہوجائے، تو وہ بنیادی انسانی اوصاف سے عاری ہوجاتا ہے۔ پھر وہاں عزّت و عصمت، تقدّس و حرمت اور شرم و حیا کی حفاظت ممکن نہیں رہتی۔
اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو
بے پردگی کی ابتدا نظروں کے بے حجابانہ استعمال سے ہوتی ہے۔ درحقیقت، مرد اور عورت کے ناجائز تعلق کا پہلا تیر، نظر ہی ہے۔ اسی لیے حدیثِ مبارکہؐ میں اسے’’نظروں کا زنا‘‘ کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے’’ (اے نبیؐ) مومن مَردوں سے کہہ دیں کہ وہ نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں ( سورۃ النّور)۔‘‘ اگلی آیت میں فرمایا’’ اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں (سورۃ النّور )۔‘‘ کیوں کہ نظر کی آوارگی ہی جنسی آوارگی کا باعث ہوتی ہے، چناں چہ پاک دامنی کی پہلی شرط، نظر کی حفاظت ہے اور نظر کی حفاظت کے فوراً بعد شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ نے فرمایا’’ یقیناً نگاہ، ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔جو شخص مجھ سے ڈرکر اسے چھوڑ دے گا، میں اُسے اس کے بدلے میں ایسا قیمتی ایمان دوں گا، جس کی حلاوت وہ اپنے دِل میں پائے گا (طبرانی)۔‘‘
مسلمانوں میں بے حجابی کا آغاز
آخری صلیبی جنگ میں ناکامی کے محرّکات پر طویل غور و خوض کے بعد یورپ کے دانش وَر اِس بات پر متّفق ہوئے کہ’’ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں شکست دینا ممکن نہیں، ان کی قوّت کا شیرازہ بکھیرنے کا واحد راستا یہ ہے کہ ان کی معیشت پر قبضہ اور معاشرت کو تباہ کردیا جائے،‘‘ پھر جلد ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ مسلمان جنگجوئوں کو جنم دینے والی سرزمینِ عرب کی معیشت پر یہود و نصاریٰ کا قبضہ تھا۔نیز، جدید تہذیب کے نام پر فحاشی اور بے حیائی کا زہر عرب معاشرے کی رگوں میں اُتارا گیا، جس سے ان علاقوں سے شرم و حیا کا جنازہ نکل گیا اور یہ ریاستیں بانجھ ہوگئیں۔ یہاں تک کہ انیس ویں صدی کے ابھرتے سورج نے عظیم الشّان ماضی کی امین، اسلامی حکومتوں کو مغرب کی غلامی میں سرنِگوں ہوکر آزادیٔ نسواں اور روشن خیالی کے نام پر بے حیائی و بےشرمی کے تیروں سے زخمی ہوتے دیکھا۔ مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط، جنسی بے راہ روی، شراب وشباب، رقص و سرود کی محفلیں، جوئے، لاٹری اور تھیٹر کی پُرکشش، رنگین شاموں نے انسانیت کی تذلیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یوں آہستہ آہستہ مسلم سوسائٹی پر مغربی رنگ غالب آگیا۔ علّامہ اقبال نے اس کی یوں عکّاسی کی ہے؎ وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدّن میں ہنود…یہ مسلمان ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود۔
پردے کے فضائل
دراصل بے پردگی، بے حیائی کا نقطۂ آغاز ہے اور بے حیائی، امّ الخبائث، جس نے مغربی معاشرے میں جنسی آوارگی کے سبب شرفِ انسانیت کو حیوانیت کے منصب پر لا بٹھایا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی عظمت، وقار اور اشرف المخلوقات کے اعلیٰ و ارفع اعزاز کے تحفّظ و تقدّس کے لیے پردے کو فرض قرار دیا۔ فرضیت کے اس اقدام کے پیچھے بیش بہا حکمتیں، بے انتہا اسرار و فضائل اور عظیم مقاصد پنہاں ہیں، جو دنیا میں شیطان کی شکست اور آخرت میں جنّت کے حصول کا ذریعہ ہیں۔سب سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ پردہ اور حیا، دونوں ایک دوسرے سے مشروط و مربوط ہیں۔ پردے کے بغیر حیا کی حفاظت ممکن نہیں اور حیا کے بغیر ایمان ممکن نہیں۔
پردہ، عورت کو ایمان کی قوّت، خود اعتمادی اور تحفّظ فراہم کرکے اُسے اللہ اور اس کے رسولؐ کا فرماں بردار اور اطاعت گزار بناتا ہے۔
پردہ، بدکاری، بے حیائی، بےشرمی، بے غیرتی، فسق و فجور، فتنہ و فساد اور شیطان کی مذموم سازشوں کے خلاف جہاد کا نام ہے۔
پردہ، دِلوں کی طہارت، شرم و حیا کی علامت، شرافت کی نشانی اور عفّت و عصمت کے تحفّظ کا آہنی حصار اور محفوظ قلعہ ہے۔
پردہ، نسوانیت کی شان، مومن عورت کی آن، مذہب و ثقافت کی پہچان، تحفّظ و پاکیزگی کا مظہر اور بے حیائی کے خلاف مضبوط ڈھال ہے۔
پردہ، عورت کے حُسن، اُس کی نزاکت و شرافت، اُس کے فخر و امتیاز، شرم و حیا، شائستگی و وقار اور عزّت و ناموس کا محافظ ہے۔
پردہ، لوگوں میں عورت کے عزّت و احترام کا باعث بن کر اُسے معاشرے میں وہ باعزّت مقام بخشتا ہے، جس کی وہ مستحق ہے۔
٭پردہ، ہمارا دینی و سماجی شعار ہے، جو عورت و مرد اور معاشرے کو نیکیوں کی جانب راغب کرنے، برائیوں سے بچانے، شیطان کے مکر و فریب اور فتنہ و فساد سے محفوظ رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی
’’ عالمی یومِ حجاب‘‘ کے موقعے پر شہیدۃ الحجاب، مروہ الشربینی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان اور اس کے چیلوں کی پہلی ترجیح نیک اور پاکیزہ بیٹیوں کو بے پردہ کرکے بے حیائی کی جانب راغب کرنا ہے۔ ایک مِصری نژاد، جرمن مسلمان بیٹی نے حجاب اور پردے کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے دنیا بھر کی خواتین کو بے پردگی، بے حیائی و بے شرمی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنے پردے کے تحفّظ کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا لازوال پیغام دے دیا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان میں فرنگی تمدّن اپنے قدم جمانے کے لیے کوشاں ہے اور مغرب کی مصنوعی چکا چوند سے مرعوب ایک مخصوص طبقہ، آزادیٔ نسواں اور روشن خیالی کے نام پر اسلامی احکامات، خصوصاً پردے کو فرسودہ قرار دیتے ہوئے اسے طنزو تحقیر کا نشانہ بناتا ہے۔ اس میں پاکستانی میڈیا کے ایک حصّے کا بھی بڑا ہاتھ ہے کہ جس نے پچھلے چند برسوں میں معاشرے کے اسلامی تشخّص کو پامال کرنےمیں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود، پاکستانی خواتین باحیا بھی ہیں اور باکردار بھی۔ انہیں دینی احکامات، قومی وقار اور اپنے تشخّص کا پورا خیال ہے۔ جوں جوں شعور و آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے، پاکستانی خواتین میں پردے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے اور یقیناً وہ دن دُور نہیں کہ جب یہ ہی خواتین، اسلامی انقلاب کی نوید ثابت ہوں گی۔اور معاشرے میں حیا کا کلچر عام ہو گا۔