فرض کیجیے کوئی ہمیں ایک کمرہ میں قید کردے اور پھر اپنی مرضی کے احکامات کی تعمیل کراتا رہے تو ہم کس قدر پریشان ہوں گے اس کا اندازہ دشوار نہیں۔ بس یہی کیفیت کسی قوم کی اس وقت ہوتی ہے جب وہ کسی دوسری قوم کی غلام ہو کر زندگی بسر کرتی ہے۔ برصغیر کے مسلمان آزادی سے پہلے بیک وقت دو قوتوں کے ظلم و ستم کے شکار تھے ان میں ایک قوت انگریز حکمرانوں کی تھی اور دوسری قوت اکثریتی ہندو قوم کی تھی۔ مسلمانوں نے ایک عرصہ تک صورتحال کو برداشت کیا وہ فرنگی آقائوں کے ہر حکم کو بھی تسلیم کرتے رہے اور ہندو قوم سے سمجھوتے کے بھی آرزومند رہے لیکن جب پانی سرسے اونچا ہو گیا تو انہوں نے اپنے لئے جداگانہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔
اس مطالبہ کا اہم جواز یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان قطعی جداگانہ اقوام تھیں۔ ان کا دین، تہذیب و تمدن، معاشرت، کلچر اور زبان غرضیکہ ہر چیز ایک دوسرے سے علیحدہ اور مختلف تھیں۔ چنانچہ مسلم قوم کا مستقبل اسی طرح محفوظ ہو سکتا تھا کہ وہ ایک آزاد مملکت کے قیام کے بعد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ انگریز اور ہندو دونوں قوتوں نے مسلمانوں کے اس جائز مطالبہ کو رد کرنا چاہا، مگر 23 مارچ 1940ء کو قرادادِ لاہور منظور ہونے کے بعد مسلم اتحاد کے پیش نظر کسی قوت کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کو ان کی منزل کے حصول سے روک سکے۔
درحقیقت شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال ؒ نے الٰہ آباد میں 1930ء میں جو تاریخی خطبہ دیا تھا اور اس میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے متعلق جو تجاویز اور حکمت عملی فرمائی تھی۔ محترم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت کے زیر سایہ ایک علیحدہ وطن تمام تر قربانیوں کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کو حاصل کیا۔ مگر اس تمام پس منظر کے بیان کرنے کے بعد 14 اگست کا دن ہر سال پاکستانی قوم کے لئے ایک نئے جوش اور ولولہ کا پیغام لے کر طلوع ہوتا ہے کہ ہم نے آزادی تو قراردادِ پاکستان کی روشنی میں حاصل کر لی ہے اب اس آزادی کو قائم کس طرح رکھا جا سکتا ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
آج پاکستان کو قائم ہوئے 73 سال ہو گئے ہیں ہم نے آزادی کی قدر و قیمت نہیں جانی بلکہ کرپٹ اور بدکردار حکمرانوں و نااہل افراد کی وجہ سے عالمی قوتوں کو اس بات کا موقع ملا تھا کہ انہوں نے بنگالیوں کو پاکستان سے علیحدگی کا سنہرا خواب دکھایا تھا اور 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے اور مشرقی پاکستان ہم سے آزاد ہو کر بنگلہ دیش بن گیا ۔ 1980ء میں مزید ایک حماقت یا غلطی حکمران طبقے سے سرزد ہوئی تھی کہ اس نے امریکہ کے اشارے پر جہاد افغانستان شروع کیا تھا اور امریکہ نے دُنیا کی واحد سپر پاور کا خواب پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا تھا اور دنیا کی دوسری طاقت روس کو توڑنے کے لئے60 ارب ڈالرز خرچ کئے تھے اور بقول جینز ڈیفنس ریویو امریکہ کا ایک اہم رسالہ جو کہ پینٹاگون کے زیر ادارت نکلتا ہے اس میں یہ اہم خبر چھپ چکی ہے۔
پاکستان کو اس قربانی کا صلہ محمد جنرل ضیاء الحق اور 35 فوجی افسروں کی شہادت کی شکل میں ملا تھا اور اس کے بعد پاکستان کو عدم استحکام کا سامنا کر نا پڑا۔ رہی سہی کسر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ ٹاورز گرا کر امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی شروع کی اور انہیں جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی مکمل حمایت حاصل تھی اور نام نہاد طالبان کی شکل میں پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا اور دہشت گردوں کی آڑ میں ہزاروں تخریب کار پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی را، امریکن سی آئی اے، اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد، اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی کی حمایت شامل ہے انہوں نے پاکستان میں خود کش دھماکے کرنا شروع کر دئیے تھے۔ آپریشن ضربِ عضب سے ان کی کمر ٹوٹی تھی لیکن اب یہ دوبارہ سر اُٹھا رہے ہیں۔ جب سے پاکستان اور چین کا سی پیک معاہدہ ہوا ہے ۔
پاکستان کو عالمی طاقتوں نے چاروں طرف سے گھیرنے کی کوشش کی ہوئی ہے۔ پاکستانی عوام ہوشیار ہو جائے اور آپس میں متحد ہو جائے تاکہ پاکستان کی سلامتی اور بقا پر کوئی آنچ نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ پاکستان کو قیامت تک قائم رکھے۔ (آمین)۔ موجودہ حکومت کی ناقص معاشی پالیسی سے پاکستانی عوام پریشان ہیں اور ان کی موجودہ مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان محترم عمران خان صاحب اس اہم مسئلے کی طرف توجہ فرمائیں اور عوام کو شدید مہنگائی سے نجات دلائیں۔ پاکستانی قوم ان کی ممنون و مشکور ہوگی۔