حجاب کیا ہے؟ محض دو گز کا ٹکڑا یا کچھ اور؟؟ اور اگر یہ صرف دو گز کا ایک ٹکڑا ہی ہے تو آج پورا مغرب اس سے خوفزدہ کیوں ہے؟؟ حجاب پر پابندیوں کا آغاز نائن الیون کے بعد اس وقت ہوا جب اسلام فوبیا کا شکار مغربی دنیا نےاسلام کی ہر تہذیبی اور ثقافتی علامت کو دہشتگردی اور انتہا پسندی قرار دے کر اس کے خلاف متعصبانہ میڈیا وار شروع کی۔ اسلامی تہذیب کی دیگر علامتوں کی طرح حجاب کوبھی مغربی میڈیا نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے عورت کی پسماندگی اور مرد کے جبر کی علامت گردانا گیا۔
ستمبر 2003ء میں حجاب پر پابندیوں کا آغاز اس وقت ہوا جب فرانس میں پارلیمنٹ کے ذریعے باقاعدہ قانون سازی کر کے حجاب کے خلاف رائے عامہ ہموار کی گئی ۔ فرانس کے بعد ہالینڈ، بیلجیئم ، جرمنی ، روس و دیگر کئی یورپی ممالک میں بھی حجاب کو نشانہ ستم بنایا گیا۔ اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے پورا مغرب حجاب فوبیا کی لپیٹ میں آتا چلا گیا۔ حجاب کے خلاف نفرت کی لہر اس وقت شدت اختیار کر گئی جب یکم جولائی 2009ء کو مروا الشربینی نامی مصری خاتون کو جرمنی کی بھری عدالت میں حجاب پہننے کی پاداش میں ایک متعصب شخص نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور عدالت منہ دیکھتی رہ گئی۔ مروا کے خاندان کو آج تک انصاف نہ مل سکا۔ حجاب کے خلاف نفرت کی یہ آگ بھڑکتی رہی۔ کئی یورپی ممالک میں آج بھی عوامی مقامات اور اسکول، کالجز اور جامعات میں اسکارف و حجاب پر پابندی عائد ہے۔ سوال یہ ہے کہ حجاب کو قابل نفرت کیوں بنایا گیا؟؟
اس کے جواب کا ادراک مسلمانوں کی اکثریت کو ہو یا نہ ہو مگر مغربی کارپردازوں کو یقیناً اس پر کامل یقین ہے کہ حجاب محض کپڑے کے ایک ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ ایک ایسے نظام اخلاق کا نام ہے جو حیا ، عفت اور عصمت جیسےاوصاف پر استوار ہے۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو مغرب کے اس حیا باختہ کلچر سے ٹکراتے ہیں جس کی بنیاد بے حیائی ، فحاشی اور بے لباسی پر رکھی گئی ہے۔ یہ وہی کارپوریٹ کلچر ہے جس کے تحت عورت کو آزادی نسواں اور مساوات کے نام پر بیچ چوراہے میں لا کھڑا کر دیا گیا ہے۔ پہلے مساوات کے نام پر عورت پر دہری ذمہ داریاں لادی گئیں اور پھر آزادی نسوں کا لالی پاپ دے کر عورت کی عزت وعصمت کو سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا گیا ۔
آج عالم یہ ہے صرف امریکہ میں ہر سال ریپ کے 3 لاکھ 21 ہزار 500 واقعات ہوتے ہیں۔امریکہ کی ایک معروف ویب سایٹ Huffington Post کے مطابق امریکہ میں ہر98 سیکنڈ میں کسی نہ کسی پر ایک “جنسی حملہ” ہوتا ہے۔ خود حجاب پر سب سے پہلے پابندی عائد کرنے والے ملک فرانس میں ہر سال 75 ہزار ریپ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ اسی طرح جنسی ہراسانی کے واقعات میں پہلے دس ممالک کی فہرست میں امریکہ، فرانس، انگلینڈ، جرمنی اور کینیڈا جیسے ممالک ہیں جنہیں حقوق اور آزادی نسواں کا چیمپیئن سمجھا جاتا ہے۔ حجاب کو عورت پر ظلم قرار دینے والوں نے خود اپنے معاشروں میں عورت کو کس حد تک تحفظ فراہم کیا ہے؟ اس کا اندازہ اوپر دئے گئے اعداد وشمار سے ہو جاتا ہے۔ آزادی کے نام پر مغرب نے عورت سے اس کا گھر اور خاندان چھینا۔ اس کی عزت و تقدس کو روندا گیا۔ اس کو برینڈ بنا کر پروڈکٹ کی طرح بیچاگیا ۔ اس کو بازاروں میں نیلام کیا گیا۔
مغرب کے اس ظالم کارپوریٹ کلچر کے خلاف حجاب عورت کے تحفظ کی علامت ہے۔ حجاب در حقیقت عورت کی عزت ، وقار اور تقدس کا استعارہ ہے۔ معروف تجزیہ نگار اوریا مقبول جان کہتے ہیں کہ “ایک عورت جو حجاب پہنتی ہے وہ 170 بلین ڈالر کی انڈسٹری کے پیٹ پر لات مارتی ہے” یہی وجہ ہے کہ حجاب کے خلاف باقاعدہ پروپیگنڈا کے ذریعے نفرت انگیز روئیوں کو مہمیز دی جاتی ہے۔
حجاب محض کارپوریٹ ذہنیت کا درد سر نہیں ۔ حجاب کو سیکولر معاشرے کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ گردانا جاتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو سیکولر معاشرہ شخصی آزادی اور انسانی حقوق کادن رات راگ الاپتا ہے۔ جن مادر پدر آزاد معاشروں میں ہم جنس پرستی تک کو شخصی آزادی کا نام دے کر اس کا کھلا لائسنس جاری کر دیا جائے وہاں حجاب کو ہوّا بنا دینا مسلم دشمنی اور تعصب کے سوا اور کچھ نہیں۔
حجاب سے مغرب کی دشمنی تو سمجھ آتی ہے مگر پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں بھی کئی ایسے مغربی کاسہ لیس دانشور موجود ہیں جن کو اس دو گز کے ٹکڑے سے خوف آتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو پاک سر زمیں میں بھی مادر پدر آزاد معاشرہ کا قیام چاہتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی درندگی کے واقعات کے باوجود پارلیمنٹ میں اس کے خلاف سزائے موت کی قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ رواں برس عورت مارچ کے موقع پر بھی اس دو فیصد طبقے نے اپنی حیا سوز اور فحش فکر کا پرچار کیا مگر عوم کی کثیر تعداد نے اس حیا باختہ سوچ کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی جس نے یہ بات ثابت کر دی کہ کلمے کے نام پر حاصل کیئے گئے اس پاک وطن میں ایسے افراد اور سوچ کی نہ کل کوئی جگہ تھی اور نہ آئندہ ہو گی۔
یوم حجاب کا پیغام ہے کہ اسلامی تہذیب کی ہر علامت اور ہر شناخت کا ہر سطح اور ہر محاذ پر دفاع کیا جائے۔ حجاب محض دو گز رومال کا نام نہیں بلکہ اس نظامِ حیا کے نفاذ کا نام ہے جس کے دامن میں ہر عورت کی عزت محفوظ ہے۔