” مما آپ نے بہت اچھا کیا جو نقاب کر لیا ْ اب آپ کی طرف کوئ بھی” انکلز ” دیکھ نہی پائیں گے “
یہ جملہ آج سے چند سال پہلے میرے بارہ سالہ بیٹے نے مجھ سے کہے ۔ ۔۔اس کے منہ سے یہ جملہ سن کر مجھے خوشگوار حیرت کے ساتھ ساتھ ناقابل بیان خوشی محسوس ہوئ جس کے اظہار کے لیۓ میرے پاس الفاظ نہی ۔۔ میرے جسم کا پور پور رب کے شکر اور احسان مندی سے جھک گیا ْ میری آنکھوں سے خوشی بھرے آنسو چھلک گۓ ْ میرے بیٹے کو اس کم عمری میں اللہ نے اچھے برے کی پہچان اور شعور دیا یہ شکر گزاری کا مقام تھا۔
مجھے باقاعدہ نقاب اپنانے کے بعد ملنے والی پہلی مثبت ستائشی تائید تھی ، جسے سن کر نقاب اپنانے کے فیصلے پر میرے اعتماد میں دوگنا اضافہ ہوا ۔ میرا معمول تھا کہ روزانہ شام چار بجے اپنے بیٹے کو ٹیوشن چھوڑنے جاتی تھی ۔ مجھے اندازہ ہی نہ تھا ک چھٹی کلاس میں پڑھنے والا میرا چھوٹا سا بیٹا میرے کھلے ہوۓ چہرے کی طرف اٹھتی نگاہوں کو نوٹ بھی کرتا ہے اور اسے وہ بے حد بری بھی لگتی ہیں۔۔۔
عبایہ پہننے کا آغاز تو میں سالہاسال پہلے سے کر چکی تھی مگر نقاب کرنا مجھے بے حد دشوار لگتا تھا ۔۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ میکے اور سسرال کے گھرانے صوم و صلواة کے پابند ہونے کے باوجود عام پاکستانی مسلم گھرانوں کی طرح نقاب اور حجاب کو ضروری نہی سمجھتے تھے ۔۔۔
لیکن الحمدللہ جب سے میں نے قرآن پاک کی تفسیر کی کلاسیز کا آغاز کیا تو تب جاناکہ زندگی اپنی من مانی سے گزارنے کا نام نہی بلکہ اپنے پیارے رب کی مرضی کو دل وجان سے اپنانے کا نام ہے ۔” آیات حجاب “میں جب جان لیا کہ حجاب کا حکم پیارے رب نے ہم عورتوں کی عزت و توقیر کے اعتراف کے طور پر دیا ہے تو اپنے حجاب سے عقیدت ہو گئ اور نقاب کو اپنانا باعث شرف لگنے لگا ۔۔۔۔بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ پردہ اور حجاب دل کا چین اور روح کا قرار بن گیا ۔۔۔
قریبی رشتہ داروں اور گھر والوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔۔۔۔۔۔ خاندان میں ایک مخلوط شادی کی تقریب میں جب پہلی دفعہ سب کے درمیان نقاب لگا کرگئ تو سب حیرت زدہ تھے ۔ ان کے خیال میں “سب اپنے ہی تو ہیں ان کے بیچ نقاب کرنے کے کیا ضرورت ہے ” ؟؟ اب بھلا ان سےکون پوچھے ” کیا پورا خاندان ہی محرم ہو گیا ؟؟
ایک بہت محترم اور مجھ سے عمر میں کافی بڑی نہایت عزیز رشتہ دار نے حد سے زیادہ “اپنے پن “ کا مظاہرہ کیا اور ہاتھ سے پکڑ کر میرے چہرے سے نقاب ہی ہٹا دیا ۔۔۔۔۔۔۔مجھے اس لمحے یوں لگا کہ جیسے میں یکا یک کھلے آسمان کے نیچے کھڑی ہوں اور چاروں جانب گھورتی نگاہیں میرے چہرے کاجائزہ لے رہی ہوں۔۔۔۔بس بتا نہی سکتی کسقدر دل دکھا ان کی اس حرکت پر ۔۔۔۔خیر جناب واپس سے پنیں لگا کرنقاب سیٹ کیا اور تحّمل سے انہیں سمجھایا کہ ۔۔۔
” پیاری باجی جب ہر جانب خواتین فیشن زدہ اور بے پردہ ہو کر سب کے بیچ بہت اطمینان سے بیٹھی ہوئ ہیں اورانہیں ان کی اس غلطی کا کوئ احساس نہی دلوا رہاتو پھر اگر میں نقاب کر کے اللہ کی اطاعت اور عین دین اور شریعت کے مطابق بلکل درست کررہی ہوں تو پھر مجھے کیوں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہاہے “؟؟؟؟
ظاہر ہے ان کے پاس اس کا کوئ جواب نہی تھا ۔۔لہذا اس دن کے بعد پھر کبھی انہوں نے میرے نقاب پر اعتراض نہی کیا ۔۔۔ شوہر صاحب نے ہماری لگن دیکھ کر نقاب پر کھل کر تو اعتراض کرنے کی جسارت نہ کی پر دبے لفظوں میں کبھی کبھار ہمارے سر سے پائوں تک کے ملفوف ہونے پر یوں کہہ دیتے ۔۔ ” بیگم اتنی گرمی میں اسقدر اوڑھ لپیٹ کر نکلنے کی کیا ضرورت ہے ْ آپ گاڑی میں میرے ساتھ چادر لے کر بھی بیٹھ سکتی ہیں ْ۔۔۔۔۔
بہت دن لگے انہیں یہ سمجھانے میں کہ “حجاب آپشنل نہی کمپلسری ہے ۔۔۔اور یہ موقع اور مرضی دیکھ کر چھوڑا اور اپنایا نہی جاسکتا بلکہ یہ تو اپنے رب کی اطاعت کے اظہار کا خوبصورت زریعہ ہے جسے اپنانے کی توفیق خوش قسمتی سے مجھے نصیب ہوئ ْ تو بھلا معمولی سی گرمی ہمیں رب کی اطاعت سے کیسے روک سکتی ہے ۔”
خیر جناب یہ جو “نفس امارہ ْ” اہے وہ اتنی آسانی سے پیچھا نہی چھوڑدیتا کبھی کبھار ایسا بھی ہوا کہ ہم ُ بازار خریداری کے لیۓ جاتے اور ہمارے چاچا تایا کی عمر کے بڑے میاں ہمیں خالہ اور آنٹی کہتے تو تن بدن میں آگ لگ جاتی خالص روائیتی “ زنانہ عمر چھپاؤ جزبات “ کو ٹھیس لگتی ۔۔۔ دل ہی دل میں انہیں برا بھلا کہتی کہ “ شرم نہیں آتی میرے ابا جتنی عمر ہے اور مجھے خالہ کہہ رہا ہے نا معقول “ پر اگلے ہی لمحے “ بی عقلُ “مداخلت کر کے ڈھارس بندھاتیں “
“ارے بیٹی یہ تو تمہاری جیت ہے کہ پردہ تم نے جس مقصد کے لیۓ اپنایا کہ دوسروںُ کی نظروں سے خود کو چھپا لو ، تو اس میں تم پوری طرح کامیاب رہی” اور واقعی مجھے محسوس ہوا کہ یہ میری جیت ہی ہے کیونکہ پردے کا اصل مقصد اپنی شکل صورتْ حئیت اور نسوانیت کو نا محرم نظروں سے محفوظ رکھنا ہی ہے ۔۔ اس دن کے بعد جب بھی کسی کام سے میرا بازار جانا ہوا اطمینان سے خریداری کرنا نصیب ہوا کیونکہ پوری طرح حجاب اپنانے کے بعد طرح طرح کی گھورتی نگاہوں نے میرا تعاقب کرنا چھوڑ دیا تھا ۔
الغرض مسلم عورت کا حجاب پروردگار کی جانب سے ایک بیش بہا انعامُ ہے ، حجاب صرف چہرہ منہ جسمُ چھپانے کا نامُ نہی ۔۔۔ یہ پورے کا پورا ایک پیکیج ہے جس میں آواز ، چال ڈھال اور باڈی لینگویج بھی شامل ہے ۔ یہ سب کچھ اللہ کے احکام کے تابع ہو تب ہمارا پردہ مکمل ہوتا ہے۔۔۔
آج کی نوجوان نسل اپنے اسلامی کلچر کو اپنانے میں ہچکچاتے ہیں اوراس کے بر عکس مغرب کی نقل کر کےاتراتے ہیں۔ضرور کہیں نہ کہیں اپنی نسل نو تک مکمل اسلامی شعائر پہنچانے میں ہم سے کوتاہی ہوئ ہے ۔ آج ہم “عالمی یوم حجاب” پر مل کر عہد کرتے ہیں کہ خدا کے عطا کردہ “حجاب ” کے اس منفرد اور انمول اسلامی شعائر کو خود بھی اپنائیں گے اور اپنی نسل نو تک بھی پہنچانے کی بھر پور کوشش کریں گے ۔۔۔۔۔
جب کبھی غیرت انساں کا سوال آتا ہے
بنت زہراؑ تیرے پردے کا خیال آتا ہے
بہت شکریہ، مجھے یہ پڑھ کر بہت سکون ملا۔