نجی تعلیمی ادارے یا نجی کاروبار

ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اعلیٰ اور معیاری تعلیم و تربیت حاصل کرے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لئے اپنے بچوں کو اپنی دانست میں معیاری اسکولز میں داخل کرواتے ہیں اوربچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لئے وہ ہر ممکن جدوجہد بھی کرتے ہیں اسی ضمن میں وہ گورنمنٹ اسکولز کو نظرانداز بھی کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کسی بھی اچھے اور مہنگے اسکول سے تعلیم حاصل کریں تاکہ معاشرے میں ان کا نام ہو اور وہ اپنے بچے کے بارے میں بتاتے ہوئے فخر محسوس کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سرکاری اساتذہ اپنے نجی اسکول اور کو چنگ سینٹر کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں اور اپنی ساری توانائیاں سرکاری اسکولز کے طلبہ کی بجائے نجی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ پر صرف کر رہے ہیں اور بحالت مجبوری والدین اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے اسکولز میں داخل کروانے پر مجبور ہیں۔
اسی طرح دوسری طرف نجی اسکولز یا تعلیمی اداروں نے اپنا ذریعہ تعلیم انگریزی بنا رکھا ہے جس کی بناء پر اکثر والدین یہ سوچتے ہیں کہ ان کے بچے کو بہتر تعلیم و تربیت ملے گی اور ان کے سماجی رتبے میں بھی اضافہ ہوگا اور وہ سب کو فخر سے بتا سکیں گے کہ ان کا بچہ بھی مہنگے اور اعلیٰ اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب نجی تعلیمی ادارے اپنے اسکولز کو ایک کاروبار کی طرح چلا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ والدین ناچاہ کر بھی اپنے بچوں کو ان کے اسکولز میں داخل کروائیں گے۔
یہ کاروبار آج کل بہت ہی زور و شور سے چل رہا ہے ہر گلی محلے میں لوگ اہنے گھروں کو ہی اسکولز بنا کر بیٹھ گئے ہیں اور انہوں نے اپنی منہ مانگی فیسیس مقرر کر رکھی ہیں۔ ہر اسکولز کی فیس اس کے معیار سے %50 زیادہ ہو تی ہے ان کے دعوے تو بہت بڑے بڑے ہوتے ہیں مگر معیاری تعلیم ان کے دعوؤں کو جھو ٹا ثابت کر رہی ہے اس کے باوجودبھی جب بھی نیا تعلیمی سال شروع ہوتا ہے ان اسکولز کی فیسوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ کام صرف فیسوں سے نہں چلتا وہ اپنے کاروبار کو چمکانے کے لیے مختلف طرح کے فنڈز کا بھی سہارا لیتے ہیں مثال کے طور پر سائنس لیب چارجز ،کمپیوٹر لیب چارجز اور بھی بہت سے چارجز۔ اگرچے اسکول میں کمپیوٹر لیب موجود ہو یا نہ ہو مگر چارجز ہر سال بڑھتے جاتے ہیں۔ ہر سال %20 سے %40 فیسوں میں اضافہ کہ باوجود بھی والدین اپنے بچوں کو نجی اسکولز میں پڑھانے پر مجبور ہیں۔
اکثر نجی تعلیمی اداروں نے سکیورٹی کے نام پر والدین سے علیحدہ چارجز اکھٹا کر رکھے ہیں اور یوں فیسوں میں اچھا خاصا اضافہ کردیا اتنا جارجز لینے کے باوجود بھی اکثر تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم بہت ناقص اور غیر معیاری ہے۔اس کے برعکس حکومت اور نجی تعلیمی ادارے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر لگے رہتے ہیں انہی نجی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر ملک میں تعلیمی معیار بہترہورہا ہے تو وہ صرف نجی تعلیمی اداروں کی کاوشیں ہیں جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے تعلیم کے نام پر کروڑوں کا بجٹ لے جارہے ہیں۔
نجی اداروں کا کہنا کہ اس بار بجٹ میں جو بل پاس کیا گیا ہے اس سے نجی تعلیمی ادارے تباہ بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمارے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کو صرف اپنے بلز، اپنے فنڈز اور اپنی فیسیسز کا خیال تو ہے لیکن انہیں اس بات کا ذرا بھی خیال یا احساس نہیں کہ ان کی اس آپس کی لڑائی میں غریب سفید پوش والدین اور خصوصا طلبہ کا مستقبل تباہ ہورہا ہے۔ نجی تعلیمی ادارے اپنے اداروں کو تعلیمی معیار سے نہیں کاروباری معیار سے بڑھا رہے ہیں جتنا اچھا اسکولز فیس بھی اتنی ہائی ہوتی ہے اس کاروباری دوڑ بھاگ میں نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے معیار تعلیم تباہ کر تے جا رہے ہیں مگر انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ انہیں اگر غرض ہے تو صرف اور صرف اپنی آنے والی فیس اور فنڈز سے۔
والدین نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں۔ خصوصا سفید پوش طبقہ۔ حال ہی میں ان سفید پوش طبقے کی آہ وبقا نے ہمارے معاشرے میں کچھ ہلچل سی پیدا کردی ہے اور اس سال کے بجٹ میں اس بل کا پاس ہونا ایک چھوٹا سا قدم ہے جوکہ حکومت کی طرف سے ان سفید پوش طبقے کے لئے ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں