حسین حسین حسین….
ہم حسینی ہیں دنیا میں پھیلے ہوئے سختیاں کربلا کی ہیں جھیلے ہوئے
حسین حسین حسین….
یار کیا وقت ہوگا ناں وہ جب کربلا کا واقعہ پیش آیا ہوگا۔ ہمت اور وفا کی اعلی مثال (رافع نے تخیلاتی طور پر سوچتے ہوئے کہا)ہاں یار صحیح کہا تم نے رافع ہم تو صرف یہ اشعار پڑھ کر ہی ایسی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں کی سوچ کہ بھی روح کانپ اٹھے۔ سوچو ذرا اگر ہم صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے حاکم وقت سے باز پرس کرنے کی سوچیں اور حاکم وقت بھی وہ جس کو تمام تر طاقت میسر ہو (عمر نے رافع کی بات کو آگے بڑھایا)
لیکن عمر بھائی اصل بات تھی کیا سوچنے کی ضرورت ہے؟
یہی تو مسئلہ ہے ہمارے معاشرے اور ہمارے ملک میں بس عجیب ماحول بن جاتا ہے ہر ہر event پر چاہے وہ کوئی قومی دن ہو اسلامی ہو یا بین الاقوامی ہم بس اپنے ہی انداز سے اسے مناتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کے اس کی اصل حقیقت یا اس واقعے سے اصل میں مطلوب کیا ہے۔
واقعی سوچنے کی بات تو ہے ہم خوب شغل لگاتے ہیں عیدالاضحی پر گائے بکروں سے اور پھر عرصے تک گوشت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اسی طرح محرم کی دو چھٹیوں میں اس کے احترام میں کھانوں اور خصوصی پروگراموں کا انعقاد کرتے ہیں حالانکہ یہ دونوں مہینے قربانی ایثار کے ساتھ کمٹمنٹ اور اللہ کے لئے جہد مسلسل کا نام ہے۔۔۔
تو بھائی اسی لئے تو کہتے ہیں کہ پڑھو مطالعہ کرو جب تک معلومات نہیں ہوگی تو صحیح فہم کہاں سے آئے گا۔
ہاں ہاں بھائ کہ نالج از پاور
بس تم ہر بات میں مذاق شروع کردیا کرو۔
اچھا اچھا ناراض نہ ہو بتاؤ کیا کہہ رہے تھے۔
میں یہ کہہ رہا تھا کہ اصل میں تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگیوں میں ان واقعات سے سبق حاصل کریں۔
کہ دین اسلام کو اپنی زندگیوں میں بھر لیں دو رنگی کی زندگی سے نکل کر یک رنگی زندگی کو اپنا لیں جس طرح ابراھیم علیہ السلام نے اپنی عزیز ترین چیز اپنے لخت جگر اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے لئے قربان کرنے لئے تیار ہوگئے تھے ہم بھی اپنی خواہشات کو اللہ کے لئے ختم کردیں۔
اور پتہ ہے ماہ محرم الحرام کائنات کی تخلیق کے دن سے سابقہ شریعتوں میں مقدس و بابرکت چلا آرہا ہے
اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا فرعون کے لشکر سے مقابلہ ہوا اسی لئے یہودیوں کے نزدیک بھی اس دن کی بہت اہمیت ہے اور وہ 10 محرم کا روزہ بھی رکھتے ہیں۔
نبی محترم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی اس دن کے روزے کی بہت اہمیت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے مماثلت نہ ہواس وجہ سے 9 اور 10 یا 10 اور 11 کا روزہ رکھنے کاحکم دیا۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ عاشورہ کے روزے گذشتہ سال کے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہیں۔
اچھا یعنی ان دنوں کے روزوں کی اتنی اہمیت ہے۔۔۔۔
ویسے بھائ ایک بات ہے جب ہم اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں تو اللہ بھی آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
ہاں یار صحیح کہا
وہ تمہیں یاد ہے حدیث قدسی۔۔۔۔ کونسی؟
وہ والی یار چاہت والی۔۔۔۔ہاں ہاں
ایک میری چاہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے لیکن اگر تو وہ کرے جو میری چاہت ہے تو میں وہ بھی تجھے دوں گا جو تیری چاہت ہے اور اگر تونے وہ کیا جو تیری چاہت ہے تو میں تھکادوں گا اس میں جو تیری چاہت ہے اور ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے۔۔۔۔
اللہ اکبر کبیرہ
یا اللہ ہم پر رحم فرمادے۔۔۔ آمین
میرے بھائی یہ واقعہ بظاہر ایک ملوکیت کا شکار انسان کا لگتا ہے جو ہر اس شخص کے خلاف ہوگیا جو اس کی بات نہیں مان رہا تھا۔
لیکن درحقیقت ہمارے لئے بڑے ہی اہم اسباق ہیں۔۔۔۔
صحیح کہا یار میرا تو سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے کہ وہ کیا ہمت کے پہاڑ ہوں گے وہ کیا شیر دل انسان ہوں گے کہ عمر کے ہر ہر حصے کے لوگ کیا جوان کیا بوڑھے کیا خواتین کیا بچے ہر شخص اسلام کی سربلندی کے لئے احیاء دین کے لئے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے میدان کارزار کو لبیک کہا
نوجوانوں مردوں کے علاوہ عورتوں اور بچوں نے جو عزم و ہمت اور شجاعت و استقلال کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ میں نظیر نہیں رکھتا۔
اور آج ہم۔۔۔۔۔۔۔
نہ کرو یار ہمارا حال تو یہ ہے کہ دین کے لئے اللہ کے احکامات کی پیروی کے لئے اس کی سربلندی کے لئے لڑنا تو دور سوشل میڈیا پر جس کے ہم چیمپئن ہیں اس پر بھی بات نہیں کر پاتے چہ جائے کہ میدان عمل میں کچھ کریں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حضرت حسین اور اہل بیت رضوان اللہ اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حق و باطل کی پہچان کریں اور اپنی زندگی میں حق کو حق کہیں اور باطل سے نبردآزما ہونے کا عزم کریں جبھی ہم حضرت حسین اور اہل بیت رضوان اللہ اجمعین سے اپنی محبت عقیدت اور اپنائیت کا اظہار کر سکتے ہیں۔
بھائ آج ہی سے ہم خود اور اپنے پیاروں کو بھی اس کی طرف توجہ دلائیں گے۔
جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا
اور درحقیقت حق یہ ہے کہ ہم نیکی کی طرف بلائیں اور برائی سے روکیں۔۔۔۔ اللہ قرآن میں فرما رہا ہے ناں کہ
تم میں ایک جماعت(گروہ) ایسی ہونی ہی چاہئے جو نیکی کی طرف بلائے اور بدی سے روکے۔
بالکل برو حضرت حسین اور اہل بیت رضوان اللہ اجمعین کی جماعت کی طرح جنہوں نے اپنی قلیل تعداد کی فکر نہ کی اور اسلام کی سربلندی کے لئے سینہ سپر ہوگئے۔
جی جناب ہمیں بھی……
قرآن و سنت کی دعوے لے کر اٹھنا ہے اور دنیا پہ چھا جانا ہے۔۔۔۔
ان شاء اللہ بھائی ان شاء اللہ