دورِ فتن میں قاضیٓ کوئی صدا یہ سن لے،
دردِ حسین رض کیا ھے؟ فکرِ حسین رض کیا ھے؟
واقعہء کربلا حق و باطل کا تاریخِ انسانیت میں وہ نا قابلِ فراموش معرکہ ھے جسے کوئی بھی صاحبِ شعور انسان نظر انداز نہیں کر سکتا۔سانحہ کربلا کے بارے میں اھلِ اسلام کا بچہ بچہ بخوبی علم رکھتا ھے ظلم و ستم کی وہ طویل داستاں جس میں یزید اور آل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمنوں نے سیدنا حسین علیہ السلام اور انکے ساتھی افراد کو شہید کیا، تاریخ میں مستند اسناد سے محفوظ کی گئی ھے. سیدنا امام حسین علیہ السلام نے دین حق اور خلافت اسلامیہ کی بقا کی خاطر یزیدی باطل لشکر کے مقابلے میں بہادری سے میدان میں اترے اپنا سر کٹا دیا مگر قیامت تک آنے والے اھلِ اسلام کے لیے یہ پیغام چھوڑ گئے کہ جہاں بھی نظامِ اسلام اور حق کے خلاف کوئی ظالم یزیدی بن کر سر اٹھائے گا تو حق پر قائم مردِ مومن حسینی بن کر اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرے گا اور اپنی جان کی بازی لگا دے گا مگر باطل کے سامنے سر جھکانا گوارا نہیں کرے گا۔
سیدنا حسین علیہ السلام کو اھلِ عراق نے خطوط کے ذریعے دعوت دی کہ کوفہ تشریف لائیں اور انکی بیعت کر لیں۔ بدلتے حالات میں سیدنا حسین علیہ السلام نے عزیمت کا راستہ اپنایا۔پھر وہ المناک معرکہ پیش آیا جس میں ایک جانب چند اھلِ حق تھے اور دوسری طرف ھوس کے غلام ھزاروں کا لشکر۔واقعاتِ کربلا تفصیلی ھیں مختصرا عرض کرتا چلوں کہ دس محرم کے روز ظہر اور عصر کے درمیان آپ علیہ السلام کی شہادت ھوئی۔ آپ کے قاتل کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ وہ شمر بن ذالجوشن تھا جبکہ یہ رائے بھی بیان کی جاتی ھے کہ آپ علیہ السلام کو قبیلہ مذحج کے ایک بدبخت شخص نے شہید کیا یہ ۓ امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایئہ میں دی(ج8,ص188)
قارئین محترم آج واقعہ کربلا تو بڑے زور و شور سے بیان کیا جا رھا ھے مگر اسلام میں اس کی اصل اھمیت کو نظر انداز کیا جا رھا ھے۔شہادت حسین علیہ السلام کو تو بیان کیا جا رھا ھے ظلم و ستم کی داستاں تو سنائی جا رھی ھے مگر فکرِ حسین علیہ السلام کیا تھی؟ یہ موضوع بہت کم کہیں پڑھنے یا سننے کو ملتا ھے۔
اسلام میں اس الم ناک واقعہ کی اصل اھمیت یہ ھے کہ اسلام کا نظامِ خلافت اور اسلام کا نفاذ اتنا قیمتی اثاثہ ھے کہ اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی جا سکتی ھے۔ آمریت و ملوکیت اور استبداد و ظلم، اسلام مخالف نظام کے خلاف جدوجہد کرنا اور حق کے قیام کی خاطر لڑنا تقاضا ایمانی ھے۔
قارئین محترم! آئیے آج ان حقائق پر نظر ڈالتے ھیں کہ جن کی بنیاد پر سیدنا حسین علیہ السلام یزید کے خلاف میدان میں اترے۔ کیا سیدنا حسین علیہ السلام کو نعوذ بااللہ اقتدار ,اختیار اور سلطنت غرض و غایت تھی؟اگر یہ مقصود ھوتا تو فقط بہتر(72) افراد کی جماعت لے کر یزیدی سلطنت کی طرف رخ نہ کرتے۔ مومن کی تلوار ھمیشہ دین کی سر بلندی کے لیے اٹھا کرتی ھے نہ کہ اپنا مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔ بقول اقبال
تیغ بہر عزت دین است و بس
مقصد او حفظ آئین است و بس
واقعہ کربلا کا تنقیدی جائزہ لیں تو فکر حسین علیہ السلام سمجھ میں آتی ھے۔ فکر حسین علیہ السلام یہ تھی کہ اسلامی حکومت قائم رھے نفاذِ اسلام ھو اور دینِ محمد رسول اللہ کا غلبہ رھے۔ مگر اس کے برعکس فکرِ یزید یہ تھی کہ اسلامی خلافت ملوکیت میں بدل اسلامی قانون حکمراں کے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے رہ جاۓ۔ تاریخِ اسلام میں یزیدی نظام وہ پہلا نظامِ حکومت تھا جس نے اسلامی خلافت کا خاتمہ کیا اور ملوکیت کا آغاز ھوا۔
حسین ابن علی رض کا مؤقف اس لحاظ سے حق پر مبنی تھا کہ انھوں نے ملوکیت کا راستہ روکا اور احیاۓ خلافت کے لیے سر بکف اٹھے۔ دینِ اسلام نے تو انسانیت کو نظامِ خلافت عطا کیا تھا نہ کہ نظامِ ملوکیت۔ اسلام میں آمرانہ نظام کو نہیں بلکہ مشاورتی فیصلوں کو اھمیت حاصل ھے۔
یزیدی نظام حکومت میں ایسی بے شمار خرابیاں تھیں جو کہ نہ صرف اسلام کے منافی تھیں بلکہ حقیقت میں اس نظام نے اسلام کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ یزید کے نظام حکومت میں سودی نظام پروان چڑھا جس سے امیر ، امیر سے امیر تر اور غریب، غریب سے غریب تر ھوتا چلا گیا۔ سیدنا حسین علیہ السلام کا یزید کے ھاتھ پہ بیعت نہ کرنے کی ایک وجہ یزید کا کردار تھا۔ قارئین محترم! میں یہ حقیقت واضح کرتا چلوں کہ یزید جیسے فرد کے بارے میں، جس کے متعلق اس دور کے زندہ صحابہ رض کی ایک کثیر تعداد کے خیالات و ملفوظات غیر مبہم انداز میں بتاۓ گئے کہ وہ انتہائی نا پسندیدہ کردار ھے، نرم گوشہ رکھنا بہت بڑی جسارت اور ناانصافی ھے۔ ایک طرف وہ ھستی کہ جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جنت کے نوجوانوں کا سردار ھونے کی بشارت دی اور اپنا محبوب قرار دیا اس کے مقابل یزید جیسے بدعمل، مستبد اور قاتل کو ترجیح دینا بہت بڑا جرم ھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث کافی واضح ھے کہ قیامت کے دن ھر شخص اس کے ساتھ کھڑا ھو گا جس کے ساتھ اس نے محبت کی۔(صحیح البخاری کتاب الأدب باب علامتہ حب اللہ عزوجل حدیث نمبر 5702)
بہرحال مورخین نے تاریخ میں یزیدی ظلم و ستم، اسلام مخالف پالیسیاں سب درج کر کے واضح کیا کہ یزید نے اسلامی نظام کی جڑ کاٹ کر رکھ دی تھی۔
ھم واقعہ کربلا کو حالیہ تناظر میں دیکھیں تو ایک شعور رکھنے والا آسانی سے جان سکتا ھے کہ فکرِ حسین علیہ السلام کیا تھی اور ھم کہاں کھڑے ھیں۔آج عالمِ اسلام میں کہیں بھی نظامِ خلافت نظر نہیں آتا . مسلم ریاست کے شہری ھونے کے ناطے ھمارے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ھونا چاہیئے کہ اسلام اور کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک میں کون سا نظام حکومت رائج ھے؟ ھماری پالیسیاں کیا ھیں؟ھمارا کردا کیا ھے؟کربلا کے بعد تو حق والے کو حسینی اور اھلِ باطل کو یزیدی کہتے ھیں۔آج کیا ھماری فکر اور سوچ حسینی ھے؟ ھم تو دعوی حسینی ھونے کا رکھتے ھیں اور ھمارا عمل اور کردار یزیدی فکر کو تقویت دے رھا ھے۔
حسینیت کا تقاضا یہ ھے کہ اسلام مخالف نظام کے خلاف مردِ مومن حسینی بن کر میدان میں کھڑے ھو جاؤ۔ جہاں قتلِ عام ھو رھا ھو جہاں اسلام کو خطرہ ھو ظالم بادشاہ یا حکمران کے خلاف ڈٹ جاؤ یہاں تک کہ وہ بے نقاب ھو جاۓ اور ذلیل و رسوا ھو جاۓ۔ آج ھم سیدنا حسین علیہ السلام کی شہادت کو سلام تو پیش کرتے ھیں مگر حسینی کردار ھمارے اندر کیوں نہیں آ رھا۔جب ھمارے اندر قوتِ ایمانی دم توڑ جاۓ تو پھر یہی حال ھوا کرتا ھے۔ پھر دعوی حسینیت کا مگر عقل ھوس کی غلام ھوتی ھے. آج کیا عالمِ اسلام میں کوئی حسینی منہج پہ کھڑا ھے؟ آج تو ھمارے مسلمان مودی کو ایوارڈ دے رھے ھیں جس نے کشمیر میں کربلا کا میدان سجا رکھا ھے۔ آج عرب دنیا اسرائیل کو تسلیم کر رہی ہے۔ آخر سوال یہ ھے کہ یزیدیت کہتے کسے ھیں؟ مگر یاد رکھیۓ کہ ھر دور میں حسینی بھی ھے اور یزیدی بھی۔ھر دور میں حسینی یزید کے مقابل میدان میں اترتا ھے۔
قارئین محترم! وہ کون سی طاقت تھی جس نے سیدنا حسین علیہ السلام کو یزید جیسے ظالم کے مقابل لایا؟ وہ طاقت عشق کی طاقت تھی. یہی عشق کی قوت ہے جو مردِ مومن کو کبھی غیر اللہ کے آگے سر جھکانے نہیں دیتی۔ بقول اقبالٓ ؎
ما سوا اللہ را مسلمان بندہ نسبت
پیش فرعونی سرش افگندہ نسبت
امام حسین علیہ السلام حق و صداقت کا ترازو ہیں۔ ہر دور میں حسینیت اور یزیدیت دو طاقتیں آمنے سامنے رہی ہیں۔ بقول اقبالٓ
موسی و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آمدپد
قارئین محترم! یہ واقعہء کربلا کے چند انقلابی پہلو ھیں جو ایک مردِ مومن کے دل کے اندر ھل چل سی مچا دیتے ھیں یوں اس کا جذبہء ایمان مانند شرر فشاں بیدار ھوتا ھے اور وہ حسینی بن کر وقت کے یزید کے مقابل اٹھ کھڑا ھوتا ھے کیونکہ ھر دور کو ایک حسین چاہیئے ھوتا ھے! جس دور میں عدل، مساوات اور امن ناپید ھو جا ئےتو وہ دور حسین کا منتظر رھتا ھے۔ آج کا دور بھی حسین کا منتظر ھے کیونکہ اسلام کی بقا فکرِ حسین میں ھے۔آخر میں حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمتہ اللہ علیہ کے وہ اشعار پیش کر رھا ھوں جو “پیغامکربلا” کا عنوان رکھتے ھیں۔
ھر روپ میں،ھر سمت ھی کرب و بلا ھے
اس آس پہ زندہ ھیں کہ عباس رض ولی دے
ھے لشکر کوفی تو آمادہ ء پیکار
دے ھم کو خدایا تو حسین ابن علی رض دے
بہترین ہے جناب آپ نے بہت اچھے انداز اور بڑے اچھے الفاظ کے ساتھ میرے خیالات اور جزبات کی ترجمانی کی
اللّٰہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے آمین!