معیشت کے اعتبار سے اس وقت دُنیا جن دو بڑے حصوں میں بٹی ہوئی ہے اُن میں سے ایک حصہ ترقی یافتہ اقوام کا ہے اور دوسرا ترقی پذیر اقوام کا۔ ترقی پذیر ممالک مختلف اسباب کے تحت اقتصادی مسائل سے دو چار ہیں۔ ہمارا پیارا ملک پاکستان بھی ان ہی میں سے ایک ہے اور ہماری معیشت درجہ بندی کے لحاظ سے غیر متوازن ہے۔
کسی ملک کی اقتصادیات کو مستحکم کرنے میں بنیادی ضرورت منصوبہ بندی کی ہوتی ہے اور یہ کام ماہرین معاشیات سرانجام دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں منصوبہ بندی میں انتہائی کمی ہے کہ ماہرین معاشیات کا ادھورا کرادار ادا کرنے کی وجہ سے ہمارے ملک کا ہر فرد بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، معیشت پابند ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک جانب طبقاتی کشمکش اقتصادی تصادم پیدا کر رہی ہے اور دوسری طرف افراطِ زر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔
اس صورتحال میں کہ جس کی نشاندہی بیان بالا میں کی گئی ہے سائنسی ترقی کے ہم قدم ہو کر چلنا ہمارے لئے اور بھی دشوار ہو گیا ہے۔ موجودہ دور محنت کا دور ہے جبکہ ہماری نوعیت زرعی ہے۔ چنانچہ متوازن اقتصادی ترقی کے لئے بجز اس کے اور کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی کہ ہر قیمت پر توانائی کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ ہماری اقتصادی ضروریات فوری طور پر جس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہمیں ایٹمی توانائی سے بھر پور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اس سلسلہ میں مصروف عمل ہے۔ اب جب ہم اپنے معاشی مقاصد کے لئے ایٹمی توانائی کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان دشمنوں میں بھونچال سا آگیا ہے اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور دوسرے سنگین الزامات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اسی سبب سے جو ممالک ہماری مدد بھی کرنا چاہتے ہیں وہ اس بھیانک پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ہم سے بدظن ہو جاتے ہیں اور نیک نیتی کے باوجود اس میدان میں ہم سخت ترین مشکلات سے دو چار ہیں۔
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور مملکت خداداد کے باشندے کسی طرح بھی اللہ کے فضل و کرم سے مایوس نہیں ہوتے۔ ہر چند ہم غریب ملک کے باشندے ہیں لیکن محنت اور غیرت ہماری معاشرت کے نمایاں اوصاف ہیں ان ہی اوصاف کے پیش نظر ہم ان ممالک سے جو ایٹمی توانائی کے حصول میں مدد دیتے ہیں اور ہمیں مفادات کی رسیوں میں جکڑنا چاہتے ہیں اُن سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ’’ٹوٹ تو سکتے ہیں ہم لیکن لچک سکتے نہیں‘‘
یہ پاکستانی عوام کی بدنصیبی ہے کہ پچھلے 20 سال سے پوری قوم کو کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر ہر حکومتِ وقت نے بے وقوف بنایا اور سابقہ حکمرانوں کو پاکستان اور پاکستانی قوم سے ذرا بھی ہمدردی ہوتی تو کالاباغ ڈیم کو چھوڑ کر بڑے اور چھوٹے ڈیم بنائے جا سکتے تھے اور ہم معاشی طور پر مستحکم ہو سکتے تھے بلکہ توانائی کا موجودہ بحران جو کہ پاکستان کی معیشت کے لئے زہرِ قاتل ہوتا جا رہا ہے اس سے محفوظ رہا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے چور، ڈاکو اور لٹیروں و قاتلوں کو اس ملک میں کھلے عام لوٹ مار، قتل و غارت گری کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ پاکستان کی معیشت اور صنعت و حرفت کو بھی سنگین صورتحال سے دوچار کر دیا گیا ہے۔
ان 20 سالوں کے عرصہ میں چین، فرانس اور دیگر ممالک سے ایٹمی ری ایکٹر منگواکر بجلی کا بحران دور کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا گیا اور ملکی دولت بے دریغ طریقے سے لُوٹ کر بیرون ملک مختلف اکائونٹس میں رکھوا دی گئیںجبکہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے اور فلاحی ریاست بننے میں اس کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کے مسائل کے مقابلے میں اس کے وسائل محدود ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لیکن زرعی پیداوار کی کمی، بہت تھوڑی شرح خواندگی، صنعتی میدان میں کم ترقی اور دیگر ضروری وسائل محدود ہونے کی وجہ سے پاکستان فلاحی ریاست کے مقاصد کو مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکاہے۔ ہمیں ایسی کوئی شرائط قبول نہیں کو ہمارے قومی مفاد کو نقصان پہنچے۔ ہم خود اپنی کوشش اور قوت سے ایٹمی توانائی کا کام مکمل کریں گے اور ان شاء اللہ اس کے حصول میں جلد از جلد کامیاب ہو کر اپنی معیشت کو استحکام دیں گے۔
پاکستان کو چاروں طرف سے بین الاقوامی طاقتوں نے گھیرا ہوا ہے اور وہ اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو معاشی و اقتصادی طور پر تباہ و برباد دیکھنا چاہتی ہیں۔ پاکستان کی معیشت 2001ء سے دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں حصہ لینے سے تباہ و برباد ہے۔ وزارتِ خزانہ حکومت پاکستان کے ترجمان نے ایک اخباری بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان کو اس نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں 20 کھرب روپے سے زیادہ کا نقصان اُٹھانا پڑا۔ امریکہ نے 63 سالوں میں سوائے دھوکہ بازی کے ہمیں کچھ نہیں دیا حتیٰ کہ ہمیں قربانی کا بکرا بنا کر روس جو کہ دُنیا کی دوسری عالمی طاقت تھی اس کے ٹکڑے کرا دئیے۔
پاکستان کو اپنی معیشت اور بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے سویلین ایٹمی ٹیکنالوجی کی شدید ضرورت ہے اور یہ ٹیکنالوجی ہمیں پُر امن مقاصد کے لئے چاہیے۔ امریکہ نے سویلین ایٹمی ٹیکنالوجی بھارت کو فراہم کرنے کے لئے اس سے فوری معاہدہ کر لیا لیکن پاکستان جس نے اپنی قومی سلامتی کو دائو پر لگا کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا سب کچھ لُٹا دیا، وہ اس سے محروم ہے۔
چین پاکستان کا ایک اچھا ہمسایہ اور برے وقت میں کام آنے والا دوست ہے۔ چینی صدر کے دورہ پاکستان کا جس طرح فقید المثال استقبال کیا گیا وہ اس بات کی گواہی ہے کہ پاکستان چین میں اللہ کے فضل و کرم سے اُنسیت ہے اور اس وقت چین اور پاکستان گوادر پورٹ سی پیک معاہدے کے تحت بہت بڑی سرمایہ کاری کر رہے ہیں جو دشمنوں کو ایک آنکھ بھا نہیں رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تمام سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی چین سے حاصل کرکے پاکستان کی معیشت اور بجلی کے بحران کو سنبھالنے میں استعمال کریں کہ پاکستان اس وقت سنگین معاشی بحران میں مبتلا ہے اور اس لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔