اسلامی سال کا آغاز صحابئِ رسول , خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے یوم شہادت سے ہوتا ہے۔کون عمر؟!!
وہی عمر جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعاوں میں مانگا تھا حق کو علی الاعلان تسلیم کرنے والے عمر , وہ عمر جنہیں دیکھ کر شیطان اپنا راستہ بدل لیا کرتا تھا۔۔
دار الصفہ میں اسلام قبول کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر نگرانی دینی تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے وہ عمر جنہوں نے ۲۲ لاھ مربع میل پر حکمرانی کی۔ بہترین لیڈر, بہترین حکمران ,بہترین منصف کہ تاریخ میں ایسے حکمران کی مثال نہیں ملتی۔ اگر عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور دور حکومت کا جائزہ لیاجائے تو آپ ایک بہترین، خطیب , منصف, فاتح , ماہر معاشیات اور منتظم ثابت ہوتے ہیں۔دس سالہ دور حکومت میں بے شمار فتوحات کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح وبہبود ,تعلیم و تربیت کے لئے اقدامات کرنا ,معاشرتی مسائل کا حل ,نئے شہروں اور نہروں کی تعمیر, عدل و انصاف کا قیام یہ وہ ساری خصوصیات ہیں جو عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں نظر آتی ہیں۔عمر رضی اللہ عنہ کے علم و تدبر اور حکمت کا اندازہ عبداللہ ابن مسعود کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے۔
“اگر دنیا کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور عمر کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو عمر کا پلڑا بھاری ہوگا۔“
دنیا نے بہت سے حکمران دیکھے ہیں لیکن عمر جیسا حکمران نہیں دیکھا.دنیا نے بہت سے فاتح دیکھے ہیں لیکن عمر جیسا فاتح نہیں دیکھا۔.دنیا نے بہت سے حق والے دیکھے ہیں لیکن عمر جیسا فرقان (حق و باطل میں فرق کرنے والا) نہیں دیکھا..دنیا نے بہت سے منصف دیکھے ہیں لیکن عمر جیسا منصف نہیں دیکھا.عمر رضی اللہ عنہ کا انصاف رہتی دنیا تک کہ حکمرانوں اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔عمر رضی اللہ عنہ کے انصاف کو مشرق و مغرب میں تسلیم کیا گیا۔ ایک یہی مثال دیکھ لیجئے قیام پاکستان سے قبل ایک دفعہ ہندو اور مسلمان رہنما میں کسی بات پر تنازع ہوا مسلمان رہنما نے ہندو رہنما کو دھمکاتے ہوئے کہا ہم گھروں سے نکلے تو تمہیں چنگیز خان یاد آجائے گا اس بات کے جواب میں ہندو رہنما نے تاریخی الفاظ کہے:
“افسوس مسلمان بھول گیا ہے کہ ان میں کوئی عمر بھی تھا۔“
آج کے مسلمانوں کو یہ بھول گیا ہے کہ ان میں کوئی عمر بھی تھا۔آج اس امت کو پھر کسی عمر کی ضرورت ہے۔
تقاضہ ہے پھر دنیا میں شان حق ہویدا ہو
عرب کے ریگزاروں سے کوئی فاروق پیدا ہو
بڑا چرچا ہے پھر سے جہاں میں کفرو باطل کا
کوئی فاروق پھر اٹھے تو حق کا بول بالا ہو
کمال است
طاغوت