پاکستان سمیت دیگر دنیا کے ترقی پزیر ممالک کی بات کی جائے تو سماج کو درپیش بڑے مسائل میں غربت ،بےروزگاری اور بد عنوانی سرفہرست ہیں جن کو حل کیے بغیر ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تکمیل ناممکن ہے۔ان میں غربت ایک ایسامسئلہ ہے جو کسی نہ کسی طور پر براہ راست بے روزگاری اور بدعنوانی سے جڑا ہوا ہے اور معاشرے میں کئی سماجی برائیوں کی جڑ بھی ہے۔ مختصراً کہا جا سکتا ہےانسداد غربت سے دیگر کئی مسائل خودبخود حل ہو سکتے ہیں۔کم ترقی یافتہ معاشروں کی بات ہو رہی ہے تو ہمارے پاس واحد مثال چین کی ہے جس نے ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے اقتصادی وسماجی ترقی کی منازل طے کی ہیں اور آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے درجے پر فائز ہے۔چین کے تخفیف غربت کے سفر میں دو پہلو بڑے نمایاں ہیں۔چین کے قیام کے آغاز میں توجہ کا نکتہ “اعانت” پر مبنی غربت کے خاتمے کی کوششیں رہیں جبکہ بعد میں اصلاحات اور کھلے پن سے “ترقی” پرمبنی انسداد غربت کو اہمیت دی گئی۔
چین کا یہ ہدف ہے کہ رواں برس سال 2020 تک ملک سے غربت کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور ہر اعتبار سے ایک اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تکمیل کی جائے جبکہ اسی دوران چین نےعالمگیر پیمانے پر انسداد غربت کے لیے بین الاقوامی تعاون اور تبادلوں کو فروغ دیا ہے۔چین کے قیام کے بعد سے ہی گزشتہ 70 برسوں میں غربت کے خاتمے کو نمایاں اہمیت دی گئی ہے۔ اگر 1949 میں چین کے قیام سے لے کر 1978 تک کے ادوار کا جائزہ لیا جائے تو انسداد غربت کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ زیادہ مرکوز کی گئی۔دیہی شعبے میں اصلاحات کی بدولت زرعی تنصیبات میں بہتری آئی ،تعلیم اور طبی دیکھ بھال کی ترقی ممکن ہوئی،زرعی ٹیکنالوجی کو گزرتے وقت کے ساتھ فروغ ملا اور سماجی سلامتی کا ایک نظام وجود میں آیا۔اس عرصے میں دیہی باشندوں کے معیار زندگی میں نمایاں تبدیلی آئی ،نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں بھی کمی ہوئی جبکہ شہریوں کی اوسط عمر میں بھی تیس سال تک کا اضافہ ہوا۔ چین نے 1978 میں اقتصادی اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسیاں اپنائیں جس میں انسداد غربت کے لیے ایک جامع نظام وضع کیا گیا۔
سن1978 سے 2012 تک “ترقی” پر مبنی انسداد غربت کو قومی حکمت عملیوں سے قریبی ہم آہنگ کیا گیا.انسداد غربت کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے مرکزی حکومت کی سطح سے لے کر کاونٹی کی سطح تک چار درجوں پر مشتمل ایک نمونہ ترتیب دیا گیا اور بنیادی ڈھانچے ،زراعت ،پانی کی بقاء، نقل و حمل ،بجلی اور مواصلاتی شعبے کی ترقی کے لیے مربوط لائحہ عمل ترتیب دیا گیا۔2012میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی 18 ویں قومی کانگریس کے بعد غربت کے خاتمے کے لیے ایک “ٹارگٹڈ” حکمت عملی پر عمل درآمد کا آغاز ہوا جس کے تحت مرکزی حکومت نے رواں برس غربت کے مکمل خاتمے کا ہدف حاصل کرنا ہے۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے پہلی مرتبہ تخفیف غربت کے لیے”ٹارگٹڈ” نقطہ نظر کا تصور پیش کیا جس میں ذمینی حقائق کے تحت غربت کے خاتمے کو ترجیح حاصل رہی۔اس عملی تصور کی روشنی میں مختلف علاقوں کی بنیادی خصوصیات کے مطابق انسداد غربت کے اقدامات اپنائے گئے مثلاً صنعتی ترقی کے اعتبار سے ایک پائیدار مائیکرو بزنس ماحول تشکیل دیا گیا ،ناقابل رہائش اور دشوار گزار علاقوں سے لوگوں کو محفوظ اور موزوں مقامات پر منتقل کیا گیا ، دیہی علاقوں میں تعلیم اور تربیت پر توجہ مرکوز کی گئی، ماحولیاتی تحفظ کو ترقی سے ہم آہنگ کیا گیا جبکہ غربت کے شکار افراد کو سماجی تحفظ ،طبی دیکھ بھال سمیت براہ راست مالیاتی وسائل بھی فراہم کیے گئے۔انسداد غربت کے لیے سرکاری اہلکاروں کو ہر گاوں میں تعینات کیا گیا جبکہ صوبائی ،بلدیاتی ،کاونٹی ،قصبے اور گاوں کی سطح پر مربوط اقدامات کیے گئے۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ 1978 کے بعد سے اب تک چین میں 80 کروڑ سے زائد لوگوں کو سطح غربت سے نکالا گیا ہے جو دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کی کوششوں کا تقریباً 70 فیصد ہیں۔چین اس وقت دنیا کی دسری بڑی معیشت ہے اور چینی قیادت کی کوشش ہے کہ ترقی کے سفر میں کسی ایک فرد کو بھی پیچھے نہ چھوڑا جائے اور ترقی کے ثمرات سے تمام چینی شہری یکساں مستفید ہو سکیں تب ہی ایک معتدل خوشحال معاشرے کا قیام ممکن ہے۔چینی کمیونسٹ پارٹی کی گورننس میں انسداد غربت کی کوششوں میں عوام کو مقدم رکھنے کا پہلو سب سے نمایاں رہا ہے۔دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ اقتصادی ، سیاسی ،سماجی اصلاحات میںہمیشہ عوام کے لیے ٹھوس ثمرات کے حصول کی جستجو کی گئی ہے۔رواں برس چین سے غربت کے خاتمے سے ایک خوشحال سماج کی تکمیل اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ آئندہ برس 2021میں چینی کمیونسٹ پارٹی اپنے قیام کی 100 ویں سالگرہ منا رہی ہے لہذا اس موقع پر انسداد غربت کے ہدف کی تکمیل چینی حکومت کا دنیا اور اپنے عوام کو ایک تحفہ ہو گا۔
چین میں ایک محاورہ ہے کہ “کسی شخص کو مچھلی دینے کی بجائے یہ بہتر ہے کہ اسے مچھلی پکڑنا سکھایا جائے” اسی نظریے کے تحت ہی ملک بھر میں لوگوں کو ہنرمند اور باصلاحیت بنایا گیا ہے۔چین کے خوشحال علاقے بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی اور انسداد غربت کی کوششوں میں پیش پیش رہے ہیں۔غربت کے خاتمے کے سفر میں کڑے احتساب کا نظام بھی وضع کیا گیا اور ایسے اہلکار جو بدعنوانی یا پھر نا اہلی کے مرتکب پائے گے ،اُن کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی گئی۔صدر شی جن پھنگ کے احکامات کی روشنی میں نگرانی کا ایک جامع نظام تشکیل دیا گیا ہے جس کا مقصد شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے انسداد غربت کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے ۔سرکاری اہلکار بھی اس ضمن میں “آئرن ڈسپلن” پر عمل پیرا ہیں تاکہ ملک کو حقیقی معنوں میں غربت سے نجات دلانے کی کوششوں میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا جا سکے۔ چینی قیادت کے دانشمندانہ فیصلوں اور چینی سرکاری اہلکاروں و عوام کے انفرادی و اجتماعی رویوں کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ چین رواں برس غربت کے خاتمے کا ہدف حاصل کرتے ہوئے دنیا کے ترقی پزیر اور ترقی یافتہ ممالک کے لیے ایک مثال قائم کرئے گا کہ اگر کوئی قوم نیک نیتی اور مخلصانہ رویوں سے مشکل ہدف کا ٹھان لے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اُس کا راستہ نہیں روک سکتی ہے۔
拥有丰富经验和较高学术背景的代考者通常会要求更高的报酬。这是因为他们能够更好地理解考试内容,确保高通过率,从而降低被发现的风险。例如,拥有博士学位或在相关领域有多年教学经验的代考者,其收费会显著高于一般的代考者。此外,如果代考者本身具有该考试的高分记录,或者在相关专业领域有很高的声誉,这也会使得其代考服务的价格水涨船高。