” ماہ محرم الحرام “

بحیثیت مسلمان ہمیں نئے سال کا آغاز اسلامی سال سے کرنا چاہیے۔ ماہ محرم الحرام سے سال کا آغاز کرنا اصحاب کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے عمل کے ہونے کی وجہ سے ہمارے لیے سنت کا درجہ رکھتا ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفائے راشدین کے طریقے کو بھی سنت قرار دیتے ہوئے امت کو ان کی سنت لازم پکڑنے کی تلقین بھی کی۔ محرم الحرام کا مہینہ عظمت والا اور بابرکت مہینہ ہے، اسی ماہ مبارک سے ہجری قمری سال کی ابتدا ہوتی ہے اوریہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے. جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیئے ہیں۔ اس ماہ کو حضور اکرم ؐ نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ اصحاب کرام کے زمانے میں جب نئے سال کا چاند نظر آتا تو وہ ایک دوسرے کو نئے سال کی دعا سکھاتے تھے۔

محرم کا مہینہ ہمیں دو عظیم اصحاب رسول کی اللہ کی راہ میں شہادت اور لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو حفص تھی، آپ رضی اللہ عنہ وہ عظیم المرتبت صحابی ہیں جن کے ایمان کی دعا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا:- “میں عمر کے ساتھ ہوں اور عمر میرے ساتھ ہے۔ اور میرے بعد حق عمر کے ساتھ ہوگا۔” (الریاض النفرہ)

27 ذی الحجہ سنہ 23 ھجری کو ایک غلام ابو لولو فیروز نے حضرت عمر رضہ کو فجر کی نماز میں مسجد نبوی میں خنجر سے حملہ کیا اور تین جگہ وار کیے۔ تین دن بعد یکم محرم الحرام کو آپ ان زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور دنیائے فانی سے کوچ کر کے شہادت کے رتبہ پر فائز ہوگئے۔

وہ حکمراں ہے کہ زمانہ اب بھی کہتا ہے

جو حاکم ہو تو ایسا ہو عدالت ہو تو ایسی ہو

محرم الحرام میں ہی ایک اور صحابی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے نواسے حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل و عیال کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: “حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، جو حسین سے محبت رکھے اللہ بھی اس سے محبت رکھے۔” (الحدیث)

محرم الحرام میں دو اصحاب کرام کی شہادت کی وجہ سے اس مہینے کو فضیلت حاصل ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس ماہ کو منحوس یا غم و الم والا مہینہ سمجھتے ہوئے بدعات شروع کر دی جائیں۔ محرم الحرام میں شادی بیاہ یا دیگر خوشی کی تقریبات منعقد کرنا بالکل درست عمل ہے۔ دس محرم الحرام کو یوم عاشورہ بھی کہا جاتا ہے اور اس دن روزہ رکھنے کی بےشمار فضیلتیں بھی احادیت سے ثابت ہیں۔ جب تک رمضان المبارک کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا فرض تھا۔ یوم عاشورہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے ہی پچھلی امتوں کے لیے بھی خاص فضیلت والا دن تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہود کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا تو پوچھا تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا یہ عظمت والا دن ہے۔ اس دن اللہ تعالٰیٰ نے حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کر دیا تو حضرت موسیٰ نے بطور شکر اس دن کا روزہ رکھا اس لیے ہم بھی یہ روزہ رکھتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”موسیٰ تمہاری نسبت ہم سے زیادہ قریب ہیں۔” اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا۔(مسلم)

ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:-“محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے، رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے۔”

واقعہ کربلا ہمیں ہمت، حوصلہ، بہادری، شجاعت، دلیری اور طاقت سے لڑنا سکھاتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جان تک قربان کر دینے کا جذبہ سکھاتا ہے۔ دین اسلام کی خاطر جینے کا مقصد سکھاتا ہے۔

واقعہ کربلا ہمیں دشمن اسلام کے سامنے سر جھکانے کے بجائے سر کٹوانے کا حوصلہ دیتا ہے۔ اللہ کی راہ میں اپنے تن من دھن کی قربانی کرنے کا پیغام دیتا ہے۔  واقعہ کربلا ہمیں بتلاتا ہے کہ

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

جواب چھوڑ دیں