چڑا ،چڑیا اور یوم آزادی

ایک مصروف شاہراہ پر چڑا اور چڑیا رہتے تھے۔ کئی پشتوں سے وہ یہاں آباد تھے۔ انہیں اس بستی سے محبت تھی۔ ہر سال جب یوم آزادی آتا تھا وہ لوگوں کا جوش و خروش دیکھتے تھے۔ چھوٹے بچے اپنی سائیکلوں پر سبز ہلالی جھنڈیاں لگاتے۔ بڑے اپنے موٹر سائیکلوں، رکشوں، ٹرکوں اور گاڑیوں پر چھوٹے بڑے پرچم لگاتے۔ گھروں اور گاڑیوں سے ملی نغموں کی آوازیں گھونج رہی ہوتیں۔ 13 اگست کی رات کو گھروں پر چراغاں کیا جاتا۔ گلی محلوں میں جشن آزادی کے حوالے سے چھوٹے چھوٹےا سٹال لگتے۔ جس پر جھنڈیاں، بیج، ٹوپیاں، چوڑیاں، ہار، بندے، وغیرہ بکتے تھے۔ ہر طرف ہریالی نظر آتی۔ کچھ سالوں سے تو سبز پرچم والے لباس بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔

خواتین اور چھوٹے بچوں کو سبز و سفید رنگ کے خوبصورت لباس پہنائے جاتے ہیں۔ پچھلی گلی میں ایک بڑا سکول تھا۔ وہاں تو جشن آزادی کی بھرپور تیاریاں ہوتیں سکول میں 14 اگست کے پروگرام ہوتے صبح اسمبلی میں سکول کے پرنسپل پرچم کشائی کرتے پھر پی ٹی شو ہوتا اور پھر ہال میں جلسہ ہوتا جس میں بچے بہت پیارے ملی نغمے تیار کرتے۔ چھوٹے چھوٹے خاکے ہوتے۔ سارے بچے خوبصورت بیج اور چھوٹے چھوٹے جھنڈے لے کر آتے۔ چڑیا اور چڑے کو یہ منظر بہت پسند تھا وہ صبح جلدی سے سکول میں لگے درختوں پر آ بیٹھتے تھے۔اور اس منظر سے لطف اندوز ہوتے۔ وہ بھی آزاد تھے اور اس پر وہ اللہ کے شکر گزار تھے۔

یہ سال گزشتہ سالوں سے بہت مختلف تھا۔ اس بار بستی کے لوگوں نے کئی ماہ لاک ڈاون میں گزارے تھے۔ اور اس جان لیوا وبا کے خوف سے گھروں میں خود کو محصور کر دیا تھا۔ چڑا چڑیا کو حالیہ عیدیں یاد تھیں کہ کس قدر اداس گزری تھیں۔ لوگوں کو کھل کر ملنے کا موقع ہی نا ملتا تھا۔ اب یوم آزادی آ رہا تھا تو بھی ان کو فکر لاحق تھی کہ ہمیشہ والی رونقیں دوبارہ لوٹ سکیں گی؟؟ سیانے کوے نے ان کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ کورونا نامی وبا کا زور اب ٹوٹ رہا ہے۔ اب دنیا دوبارہ سے آزاد ہو رہی ہے۔ محفلیں رونقیں دوبارہ سے شروع ہو جائیں گی۔ اس پر دونوں سجدہ شکر بجا لائے۔ سیانے کوے نے ہی کچھ دن قبل محدود تعداد میں حج ہونے کی خوشخبری دی تھی۔

چڑیا کو تو اس کی تمام باتوں پر یقین تھا۔ البتہ چڑا کچھ باتوں میں مشکوک ہی رہتا تھا۔ لیکن جو بھی تھا ان کے پاس خبر پہنچانے والا کوئی تو تھا۔ اب یوم آزادی پر بھی کچھ رونق بحال ہونے کا کہا تھا۔ چڑیا نے پچھلے سال چڑیا گھر دیکھا تھا اور اسے پنجروں میں بند جانور دیکھ کر بہت دکھ ہوا تھا۔ اب وہ سوچ رہی تھی کہ اگر یہ انسان اس لاک ڈاون سے سبق لیں تو بے زبانوں کو یوں تفریح کے لئے قید نا کریں۔

ہر سال جو بچے بڑے جھنڈیاں لگاتے وہ پھر زمین پر گری ملتی تھیں 14 اگست کو تو جھنڈیوں سے ہریالی کر لی جاتی تھی مگر یہ انسان دن بدن درخت کاٹ رہے ہیں۔ کاش کہ یہ اصلی ہریالی یعنی درخت لگانے پر توجہ دیں ہے نا؟ چڑیا نے دکھ سے چڑے کو کہا۔ چڑے نے جلدی سے اثبات میں گردن ہلائی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس وبا کے زمانے نے اس کی بھولی چڑیا کو کتنا سیانا کر دیا ہے۔

جواب چھوڑ دیں