زلزلوں کی نہ دسترس ہو کبھی
اے وطن تیری استقامت تک
ہم پہ گزریں قیامتیں لیکن
تو سلامت رہے قیامت تک
جیسے جیسے جشن آزادی کے دن قریب آ رہے تھے_ٹی وی،بسوں،گاڑیوں میں ولولہ انگیز نغمے مزید زور و شور سے گونج رہے تھے_ہر بچہ بڑا پر جوش نظر آتا تھا_اور ان سب میں اک میری ذات تھی جو بیزار تھی_میری اماں تو مجھے کہتی بھی آدم بیزار تھیں_آج صبج کی بات لیے لیجۓ_جب میں گھر سے نکلا تو گلی میں کھڑے بچوں کے چہروں پہ جو خوشی تھی وہ دیدنی تھی_میں جسے ہمشیہ سے بیرون ملک جانے کا شوق تھا_اس نے کبھی ملک کے معاملات میں دلچسپی ہی نہیں لی_اور اس سب میں 14 اگست کا شور بھی مجھے وبال جان سے کم نہیں لگ رہا تھا_
یہ انھی دنوں کی بات ہے جب میں بے خبری کی زندگی جی رہا تھا کہ میری ملاقات فٹ پاتھ کے کنارے بیٹھے بابا جی سے ہوئی لوگوں سے باتیں کرنے کا شوق مجھے شروع سے ہی تھا _میں بھی با با جی کے پاس بیٹھ گیا _اور ان سے باتیں کرنے لگا_بابا جی جو چیزیں وہاں بیٹھے بیچ رہے تھے وہ تھیں 14 اگست کی جھنڈیاں اور پاکستان کا جھنڈا_
ابھی میں انھی چیزوں کو دیکھ رہا تھا کہ بابا جی نے مجھے دلگیر لہجے میں مخاطب کیا،اور کہنے لگے_پتر اب کی نسل تو 14 اگست اک دن مناتی ہے_آج یہ بچے سب کچھ اتنے اہتمام سے خرید کے لے کے جارہے ہیں_اور جب دو دن بعد 14 اگست گزر جاۓ گی تو یہ سب نالیوں،سڑکوں اور کوڑے دان کی زینت بن جائیں گے_
اتنی سی بات کہتے ہوۓ ہی بابا جی کی آنکھیں نمی سے چمکنےلگی تھیں_بابا جی مزید گویا ہوۓ کہ پتر آج کل کی نسل اپنے ملک میں رہنا ہی نہیں چاہتی_اس ملک کے گونچے اور ڈالی کو سر سبز و شاداب کرنا ہی نہیں چاہتی_کسی غیر ملک جا کر کسی اور کی غلامی کر کے فخر سےبتانے میں ان کی عزت کم نہیں ہوتی پر اپنے ملک میں محنت کر کے عزت سے کمانے میں عزت کم ہوتی ہے_
بابا جی کی باتیں سن کر میری بھی سوچ کے در وا ہو رہے تھے_با با جی کی باتوں کے ساتھ ساتھ میں بھی آگہی کی منزلیں طے کر رہا تھا_بابا جی بولے پتر!آج جس ملک کو ہم تباہ کر رہے ہیں_اسے کسی نے بہت کوششوں سے لیا تھا_آج ہم یہاں وہاں جو اسکی برائیاں کر رہے ہیں_ہمارے قائد نے بڑی مشکلوں سے بکھرے ہوۓ شیزارے کو اکٹھا کیا تھا_اور میں جو بابا جی کو سن رہا تھا ،قائداعظم کا نام اتنی عقیدت سے لینے پر ہی وہیں کسی سوچ اٹک گیا تھا_
بابا جی کہنے لگے پتر!ملک کی مثال اک فصل کے جیسی ہے_جس کو کسان بڑے پیار،محنت،لگن سے بناتا اور پروان چڑھاتا ہے_اور جب اسی فصل پہ ٹدی دل حملہ کر دیں تو فصل منٹوں میں تباہ ہو جاتی ہے_بابا جی کہتے پتر!یہ جشن آزادی یوں ہی گزر جاۓ گا_ٹی وی پہ نغمے اور پروگرام چلائیں جائیں گے_پر آزادی کے وقت بکھرنے والا ہر شہید کا خون آج بھی کوئی محسوس نہیں کرے گا_ماؤں کے لختِ جگر کیسے کاٹ دیۓ گۓ اس کا دکھ آج بھی کوئی نہیں سمجھ پاۓ گا_ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ بھی جشن آزادی نغموں پہ ناچ گا کر گزر جاۓ گا لیکن ہم میں سے کوئی بھی اپنا آپ بدل کر ملک میں حصہ نہیں ڈالنا چاہے گا_
بابا جی کی باتیں دل پہ لگ رہی تھیں_اتنا سوز تھا اور اک سکون تھا ان کے چہرے پہ ،میں انھی سوچوں میں گم تھا کہ بابا جی نے مجھے مخاطب کیا کہ پتر یہ قوم ہمت والی بہت ہے بس بھٹک گئ ہے_اس آخر جملے کے ساتھ بابا جی وہاں سے چل دیۓ_مجھے بھی انکا نام پوچھنا یاد نہ رہا اور نہ انھوں نے میرا پوچھا_بس کانوں میں بہت عرصہ پہلے سنا ہوا شعر سنائی دینے لگا_
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
میں بھی اپنے واپسی کے سفر پر گامزن ہوا اورسوچوں نے مجھےطوفان کی طرح جکڑ لیا_میں سوچنے پہ مجبور ہو گیا کہ کیا واقعی ہی یہ وہ پاکستان تھا؟ جو قائداعظم نے ہمارے حوالے کیا تھا؟کیا ایسا دیکھنا چاہتے تھے وہ پاکستان کو؟
پاکستان تو حوصلوں اور ہمتوں کا مل لک ہے_آپ میں اور ہمارے قائد اپنی قوم میں ہمت و حوصلہ ہی تو دیکھنا چاہتے تھے_پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے آپ اور میں اسلامی قوانین کی بالادستی ہی تو چاہتے ہیں_لیکن پھر کیوں ایسا ہوتا نہیں کہ ہم اسلامی قوانین کو لاگو ہی نہیں کرتے_کیوں ہم بے ایمانی سے ایمان داری تک جانے والے رستے کو مشکل بنا چکے ہیں_کیوں ہم اپنے ہی ملک کی ہر خوبصورت چیز کو بدصورت بنانے پہ تلے ہوۓ ہیں_کیوں ہم اپنے ہی ملک میں خود ہی کوڑا پھینک کر اسے گندا کر دیتے ہیں اور پھر مثال یورپی ملکوں کی دیتے ہیں_کیوں ہمارے اسکولوں نے بچوں کو بنیادی دینی اخلاقی تعلیم دینی بند کر دی ہے_ جو کہ بچوں کی دی جانی چاہئے_
آپ اور میں کوئی بھی ملک کو تباہ حال نہیں دیکھنا چاہتا پر کوئی بھی ملک کے لیۓ دی گئی قربانیوں کو سمجھنا نہیں چاہتا_ہم میں سے کوئی بھی اپنے حالات سنوارنا نہیں چاہتا_آپ اور میں پورا ملک اور اس ملک کو چلانے والے صرف ایک دوسرے کو الزام دینا چاہتے ہیں _لیکن اپنی حالت کوئی نہیں سوبدلنا چاہتا_میں نے تو آج ارادہ کر لیا ہے کہ یہ ملک میرا ہے اس میں اگر کچھ برا ہے تو بہت کچھ اچھا بھی ہے_یہ ملک میرا ہے بدلنے کی ضرورت مجھے ہے میرے ملک کو نہیں_آیۓ اور آپ بھی ملک کی خدمت میں حصہ ڈالیۓ_
کسی سیاست دان یا کسی اور کی اصلاح کرنے سے پہلے اپنی اصلاح کیجۓ_کسی اور کی ذات سے شروعات کرنے کی بجاۓ اپنے آپ سے شروعات کیجۓ_جیسا پاکستان آپ دیکھنا چاہتے ہیں اس کو ویسا بنانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیۓ_
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی
تو اے مسافر شب!خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی