وہ ایک شخص جس کے جانے سے علم وادب کے ایوان ویران ہو گٸے۔۔۔۔۔ مدتوں یاد رہے گا۔۔۔ چونکہ دل ودماغ ابھی تک یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اردو،عربی،انگریزی اور گمنام ایوانوں میں دھول مٹی سے اٹی فارسی زبان پر کمند ڈالے میدان صحافت کے شیر خدا، مرد صحافت، سفیدریش استاذ الاساتذہ قابل صد احترام جناب اطہر ہاشمی صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔۔۔ وہ تو حسب سابق و حسب عادت رات کے پچھلے پہر چند لحموں کے لٸے کمر سیدھی کرنے لیٹے تھے مگر خدا جانے ابھی تک آنکھ کیوں نہیں کھلی ۔۔۔۔
گزشتہ چار دن سے ان کے چاہنے والے” مساجد“ میں اور ”جسارت“ میں انہی پکار رہے ہیں۔۔۔۔ لیکن وہ ہیں کہ”میاں سونے دو 40 ،42 سال میں پہلی مرتبہ کتابوں کے مرتبان سے نکل کر سکون کی نیند میسر آٸی ہے“ ۔۔۔۔۔جیسا جواب دے کر سیدھی کروٹ ،منہ طرف کعبہ کٸے لیٹے ہیں ۔۔۔۔
خضرت علی ؒ کا قول مبارک ہے کہ” جس نے مجھے ایک لفظ بھی سیکھا دیا وہ میرا استاذ ہے“ ۔۔۔ ۔اگر اس قول کے پس منظر میں دیکھا جاٸے تو اطہر ہاشمی صاحب مرحوم جسارت میں چھپنے والے یومیہ لاکھوں الفاظ پڑھنے والے لاکھوں اساتذہ، طلبہ اور عام لوگوں کے استاذ تھے ۔۔۔
طویل مدتی ریاضت کی خواہش میں قلیل مدتی ملازمت میں روز ایک نٸے لفظ سے شناساٸی اور” اداریے“ اور ”خبر لیجے زبان بگڑی“ میں طنزومزاح سے بھر پور علمی موتی میری زندگی کا انمول خزانہ ہیں ۔۔۔۔اس خزانے کے حصول میں اپنے محسن مظفر اعجاز صاحب کا اور فہیم بھاٸی کا میں دل کی اتھاہ گہراٸیوں مشکور ہوں ۔۔۔۔
اطہر ہاشمی صاحب کے لٸے لکھنے والے انہیں زیادہ تر اردو ، فارسی اور عربی پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔۔۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ پاکستان کی علاقاٸی زبانوں کا بھی پورا پورا علم رکھتے تھے۔۔۔۔ ایک مرتبہ غالباً ”ڈان“ ٹی وی کے اردو بلاگ میں اپ لوڈ ہوٸے ان کے ایک کالم میں گوجری زبان کا کوٸی محاورا چھپا تھا ۔۔۔۔جو نظر سے گزرا تو لگا یہ صحیح نہیں لکھا گیا ۔۔۔۔اس پر بھاٸی ہدایت سے بھی تذکرہ ہوا ۔۔۔۔
چونکہ میں گجر ہوں اور گوجری میری زبان ہے اس لٸے مطمٸن نہ ہو سکا اور اگلے دو تین دنوں میں سرخیاں دکھاتے ہوٸے شکوہ کر ہی ڈالا۔۔۔۔۔ اور جواب میں انہوں نے اس قدر تفصیل سے اس گوجری محاورے کی تشریح کی کہ لگا یہ تو کوٸی ہم سے بھی بڑے گجر ہیں ۔۔۔۔جو گرمیوں میں کسی(بہیک) مخمل جیسی گھاس کے میدانوں(یہ میدان کسی امریکی یا فرانسیسی گھاس کےنہیں ہوتے بلکہ وادی کاغان اور مقبوضہ و آزاد کشمیر کے سیاحتی مقامات پر قدرتی گھاس سےمزین ہیں) میں بیٹھ کر ”گوجری مہاری زبان“ میں بیت بازی کرتے رہے ہیں۔۔۔
گزشتہ ماہ جب مسلم لیگ (ن) کے ناٸب صدر اور مانسہرہ سے کے پی کے اسمبلی کے رکن سابق وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے قوم کے پرزور مطالبے پر صوباٸی اسمبلی سے گوجری کو نصاب کا حصہ بنوانے کی قرارداد منظور کراٸی تو دل میں خیال آیا کہ زبان وبیان کے اس مضمون کے اسلوبی پہلوٶں پر بذات خود ہاشمی صاحب سے استفادہ کرتے ہوٸے مضمون تیار کرنے والے بورڈ کو بھی آگاہی فراہم کروں گا۔۔۔۔۔ مگر شومٸی قسمت کہ اس کا موقع ہی نہ مل سکا اور مجھ سمیت ہزاروں شاگردوں کی خواہشات کا گلہ گھونٹتے ہوٸے ہاشمی صاحب اپنی حسرت پوری کرنے میں کامیاب ہو گٸے ۔۔۔
اللّٰہ پاک اطہرہاشمی صاحب کو کروٹ کروٹ جنیت نصیب کرے اور ان کے لواحقین سمیت ہم لاکھوں وارثین علم و متوسلین اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرماٸے ۔۔۔
اب محترم جناب مظفر اعجاز صاحب ، قابل صد احترام یحییٰ بن زکریا صاحب ، جناب اے اے سید صاحب ، سراج اجمل صاحب اور (سنا ہے کوٸی محمد الیاس صاحب بھی ہیں جو ادارتی صفحے پر معاونت کرتے ہیں اگر یہ الیاس بھاٸی عبدالمتین کے صاحبزادے ہیں تو بلاشبہ انتہاٸی قابل نوجوان ہیں جو جامعہ بنوری ٹاٶن سے فارغ اور ہومیو پیتھیک کے طالب علم ہیں) الیاس صاحب کی ذمے داری ہے کہ علم کے اس تپتے صحرا میں کوٸی پیاسا نہ مرے ۔۔۔خصوصاً ”بگڑی زبان“کی خبر گیری کاسلسلہ تھمنا نہیں چاہٸے ۔۔۔۔۔کیونکہ اس سے استفادہ کرنے والے صرف شہروں میں ہی نہیں بلکہ ملک کے بلند وبالا پہاڑی سلسلوں میں بسنے والے ہزاروں ہیں جن میں بڑی تعداد سرکاریوں کی ہے جو ”فراٸے ڈے اسیپشل “ سے سنگلاخ وادیوں میں اپنےشاگردوں کی پیاس بجھا رہے ہیں۔۔۔۔
اب آپ لوگوں کو ذمے داری کے ساتھ پھونک پھونک کر چلنا ہوگاکہ یہ آب رواں کسی بھی قسم کی ہلکی پھلکی چوٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔