منظومات‎

 

عنوان: “سراب کی مانند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

سولی پر لٹکی ہوئی ایک لاش کی مانند…….

بھٹکی ہوئی کوئی روح ہو سراب کی مانند….

 

سر پر گناہوں کا بوجھ لیے گھوم رہے ہیں…

خود اپنے خریدے ہوئے عذاب کی مانند……

 

ریت کے گھروندے جو تا عمر سنوارے……

پت جھڑ میں گر گئے اک شاخ کی مانند…….

 

وہ مجھ کو در غیر پہ یوں چھوڑ گیا ہے….

خیرات میں پھینکی ہوئی سوغات کی مانند….

 

ہر لحظہ تیری یاد سے آنکھوں کو سنوارا

مخملی پھولوں سے سجی رات کی مانند

رضوانہ زین، کراچی

 

 

عنوان “ندامت کے آنسو

 

یہ کیسی خطا تھی یا کیسی سزا ہے

جدا ہو گئے کیسے انسان سے انسان

 

عقل دنگ ہے یہ سب کیا ہوگیا

کہ پل بھر میں دنیا ہوئی کیسے ویران

 

غفلت کی چادر جو اوڑھے ہوئے ہیں

پلٹ آؤ پھر نہ ملے موقع دوبارہ

 

لقمہ اجل بن گئی دنیا ساری

ہوگئی زندگی کتنی حیراں پریشاں

 

وہ سجدے وہ آنسو نظر کرم میں

کہ فرشتے بھی ہے کس قدر حیراں حیراں

شبانہ ضیاء، کراچی

 

عنوان “وفا

 

ہم عہد وفا کو نبھاتے چلیں

اپنے حصے کی شمع جلاتے چلیں

 

منزل اپنی پر کٹھن ہی سہی

راستے کے کانٹے ہٹاتے چلیں

 

میری نسل نو دیکھی صبح بہاراں

اپنے سینے پہ زخم کھاتے چلیں

 

بنیاد قائم ہو جس کی لہو سے

ایسا چمن ہم سجاتے چلیں

 

یاد کر کے وفا کو ہر آنکھ روئے

ایسی وفا ہم نبھاتے چلیں

 

نعمت ملی ہم کو اس جہاں میں

کیوں خاک زمانے کی چھانٹتے چلیں

شبانہ ضیاء، کراچی۔

 

جواب چھوڑ دیں