آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھی خلیفہ سوئم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریش کی ایک شاخ بنو امیہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا شمار قریش کے معزز لوگوں میں ہوتا تھا۔ حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ کی نانی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پھوپی تھیں۔سلسلہ نسب عبدالمناف پر جا کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی تعالیٰ عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کیا اس طرح آپ رضی تعالیٰ عنہ کا ابتدائی اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔آپ ایک خدا ترس اور غنی انسان تھے۔ راہِ خدا میں کثرت سے خرچ کیا۔ اسی بنا پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے آپ رضی تعالیٰ عنہ کو غنی کا خطاب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدہ رقیّہ رضی تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت امّ کلثوم کا نکاح بھی حضرت عثمان سے کر دیا۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دو لخت جگر سے یکے بعد دیگرے نکاح کرنے کی وجہ سے لقب ذولنورین ملا آپ رضی تعالیٰ عنہ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی انہیں جنت کی بشارت دے دی تھی۔اسلام قبول کرنے کی پاداش میں چچا حکم بن ابی العاص نے خوب ظلم و ستم برپا کیا لیکن آپ ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ کلمہ حق سے نہ ٹلے اور نہ اسلام کے راستے سے پیچھے ہٹے بلکہ جب تک زندہ رہے اپنی ذات اور مال سے اسلام کو خوب نفع پہنچایا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام کی راہ میں دو ہجرتیں کیں ایک حبشہ اور دوسری مدینہ منورہ کی طرف۔ حضرت عمر ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 27ذی الحج 23ہجری کو ہوئ۔ وفات سے قبل حضرت عمر فاروق ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جو چھ ارکان پہ مشتمل تھی۔ اس کمیٹی نے خلافت کے لیے حضرت عثمان کا انتخاب کیا اور یوں حضرت عثمان اسلام کے تیسرے خلیفہ بن گئے۔ اس وقت حضرت عثمان کی عمر 70سال تھی۔ آپ ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ بن کر تقریباً 12سال خدمتِ دین کی توفیق پائی۔ آپ ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایران اور شمالی افریقہ کا کافی علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔حضرت عثمان کو جامع القرآن بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت عثمان ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بتائی گئ ترتیب کے مطابق قرآن کو ایک جلد میں جمع کیا پھر اس کی کاپیاں بنوا کر تمام اسلامی دارالحکومتوں میں بھیج دیا۔ یہ کام اپنی اور اکابر صحابہ اکرام کی زیر نگرانی کروایا۔
شہادت ابنِ عساکر زید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا۔”ایک دن عثمان رضی تعالیٰ عنہ میرے پاس سے گذرے اور اس وقت ایک فرشتہ میرے قریب تھا جس نے کہا یہ شخص (عثمان ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ) شہید ہو گا۔”اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی حضرت عثمان کی شہادت کی پیشگوئی کر دی تھی اسلام کے دشمنوں خاص کر مسلمان نمامنافقوں کو خلافتِ راشدہ ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اور ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے جب امت کے کامل اتفاق سے حضرت ابو بکر صدیق ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پھر بعد میں حضرت عثمان غنی ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خلیفہ امتِ مسلمہ کے طور پر چناؤ کیا۔
حضرت عثمان نرم دل تھے اس نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں منافق مسلمانوں نے کئ شورشیں برپا کیں۔ محمد بن ابو بکر جیسے لوگوں کو بھی آپ رضی تعالیٰ عنہ کے خلاف کر دیا۔ آپ ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرنے کی ناپاک سازش کی اور ایسے وقت میں بھی آپ ۓرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا جب اکثر صحابہ اکرام حج کے لیے مکہ گئے ہوئے تھے۔یہ محاصرہ چالیس دن جاری رہا آپ کی عمر اس وقت 82 سال تھی۔ اسی دوران رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانثار مسلمانوں نے محاصر باغیوں کے خلاف لڑنے کی اجازت مانگی لیکن آپ نے منع کر دیا اور کہا کہ میں اپنی خاطر مسلمانوں کا خون نہیں بہانا چاہتا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین اور دوسرے چند صحابہ کے بیٹوں کو کاشانہ خلافت کی حفاظت پر مامور کیا ۔ محاصرہ کے چالیس روز بعد محمد بن ابوبکر دیوار پھلانگ کر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور آپ کی داڑھی پکڑ کر کھینچی تو آپ نے کہا بھتیجے اگر تمھارا باپ زندہ ہوتا تو اسے یہ دیکھ کر کتنا دکھ ہوتا؟
یہ الفاظ سن کر محمد بن ابوبکر ندامت زدہ ہو گیا اور چلا گیا۔ دوسرے باغیوں نے روزے کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بچاتے ہوئے آپ کی زوجہ حضرت نائلہ کی انگلیاں کٹ گئیں۔18ذی الحج 35 ہجری کو حضرت عثمان کی شہادت ہوئی۔ اگلے پانچ دن امتِ مسلمہ بغیر کسی خلیفہ کے رہی۔ پھر خلافت کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مطالبہ ہوا کہ باغیوں سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قصاص لیا جائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکمت کے تحت کچھ دیر قصاص ملتوی کر دیا جس سے قصاص کے حمایتی مسلمانوں کے دلوں میں غلط فہمی پیدا ہو گئ جس سے جنگِ جمل وجود میں آگئی۔ اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب میدانِ جنگ میں مسلمانوں کا مقابلہ مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔دونوں گروہوں میں صحابہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ ایک مسلمان کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنا ہے، شیطان نے نسیان میں ڈال دیے۔جنگ شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تدبّر سے کام لیتے ہوئے جنگ روکنے کی خاطر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اونٹ کی کونچیں کٹوا دیں اور دوسری طرف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور یہ جنگ اختتام پذیر ہو گئ۔پیارے مسلمانوں ذرا غور کریں جنگِ جمل کے دونوں اطراف کے سپہ سالار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہرضی اللہ تعالیٰ عنہا ،دونوں ہی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لاڈلے پیارے اور بچپن سے ہی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تربیت میں رہنے والے۔ دونوں مضبوط مسلمان کیسے لڑنے کے لئے آمنے سامنے آ گئے؟شیطان مسلمانوں کے درمیان اپنے پسندیدہ دو ہتھیار پھینکتا ہے غلط فہمی اور اتحاد کی کمی۔اور یہ ہتھیار اس وقت کام کرتے ہیں جب ہم خود کمزور پڑتے ہیں۔ ہمارے ہی درمیان بسنے والے منافقوں کے روپ میں شیطان کے چیلے کام کر جاتے ہیں اور ہم آپس میں ہی گھتم گھتا ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے دلوں سے غلط فہمیوں کی الائشوں کو نکال کر مسالک و تفرقوں کی قید سے آزاد ہو کر اتحاد کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہو گا۔ کیونکہ مسلمانوں کا اتحاد ہی سب کا دردِ سر ہے پھر دیکھنا فتح و عُروج مسلمانوں کا ہی مقدر ہے۔