شرم و حیا۔۔۔ایمان کا حصہ

حیا انسان کی فطری صفت ہے چونکہ دین اسلام ایک فطری دین ہے اس لئے اس میں حیا کی بہت تعلیم دی گئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “حیا ایمان کا حصہ ہے” (بخاری)۔ یعنی جس شخص میں ایمان ہو اس میں حیا بھی ہو۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: “ہر دین کی ایک امتیازی علامت ہوتی ہے اور اسلام کا امتیاز حیا ہے” (ابن ماجہ)۔مسلمان معاشرے اور کافر معاشرے میں جو سب سے نمایاں فرق ہے وہ حیا کا تصور ہے۔ ایمان کی حفاظت میں حیا کا بڑا عمل دخل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “حیا اور ایمان جڑواں ہیں اگر ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے” (بیہقی)۔ یعنی جس میں حیا نہ رہے اس میں ایمان بھی نہیں رہتا۔
شیطان نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو بہکایا کہ اس درخت کا پھل کھا لو۔ جب انہوں نے کھا لیا تو بطور سزا وہ بے لباس ہوگئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ روز اول سے شیطان کا یہی مقصد ہے کہ وہ انسان کی حیا پر وار کرے۔ اسی لئے دشمنان اسلام بھی اسلام ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے ہیں ڈراموں، فلموں، اشتہارات، مارننگ شوز کے ذریعے معاشرے میں بے حیاء پھیلاتے ہیں۔ تاکہ جب مسلمانوں سے حیا چلی جائے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہوجائے گا۔ان کی یہ سازش بالکل کامیاب جارہی ہے مسلمان بتدریج حیا اور ایمان سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔حیا کے دو درجے ہیں ایک درجہ یہ ہے کہ لوگوں سے حیا کرنا۔ مثلا اساتذہ، والدین، بزرگ وغیرہ۔ حیا کا یہ تصور جن میں پایا جائے اور وہ اس کی وجہ سے خود کو برے کاموں سے بچائیں اسلام نے ان کی قدر کی ہے۔
حیا کا دوسرا تصور اللہ سے حیا کرنا ہے اور یہی حیا کا اصل مقصد ہے کیونکہ لوگوں سے حیا کا سبب بھی پس پردہ اللہ سے حیا ہی ہے۔ اسی لئے احادیث میں اللہ سے حیا کی تلقین کی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیا کی جائے” (بیہقی)۔مراد یہ ہے کہ مثلا آپ ٹی وی دیکھ رہے ہیں یا انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں آپ کے آس پاس کوئی نہیں ہے کسی کی آپ پر نگاہ نہیں ہے آپ جو چاہیں دیکھ سکتے ہیں۔ تب بھی اللہ تو آپ کو دیکھ ہی رہا ہے۔ اس وقت اللہ سے حیا ہی ایمان ہے اور یہی حیا ایک مومن سے مطلوب ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے: “لوگوں! اللہ سے حیا کرو۔ لوگوں نے کہا ہم تو اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے حیا کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر کی اور جو کچھ اس میں ہے اس کی حفاظت کرو” (ترمذی) یعنی سر میں جو دماغ ہے اس سے جو کچھ تم سوچتے ہو، جو خیالات تمہیں آتے ہیں، جو منصوبے بناتے ہو اس کے بارے میں اللہ سے حیا کرو۔ آنکھیں ہیں ان سے کیا دیکھتے ہو اس کی حفاظت کرو۔ کان ہیں ان سے کیا سنتے ہو اس کے بارے میں اللہ سے حیا کرو۔ زبان ہے اس سے کیا باتیں کرتے ہو، تمہاری باتوں سے معاشرے میں جو فساد یا بھلائی پھیلتی ہے اس کے بارے میں اللہ سے حیا کرو۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “پیٹ میں جو کچھ ہے اس کے بارے میں اللہ سے حیا کرو” (ترمذی)۔ یعنی پیٹ میں کیا ڈالتے ہو، کیا کماتے ہو، اپنی اولاد کو کیا کھلاتے ہو اس کے بارے میں اللہ سے حیا کرو۔ “جس نے ایسا کیا اس نے درحقیقت اللہ سے حیا کا حق ادا کردیا” (ترمذی)۔
اسلام صرف بے حیاء سے منع نہیں کرتا بلکہ حیا پھیلانا بھی چاہتا ہے۔ اسی لئے ستر کی بھی حدود دور دور مقرر کیں۔ قرآن میں بھی فرمایا اپنی نظروں کی حفاظت کرو تاکہ معاشرے میں حیا دار ماحول قائم ہو۔ حدیث مبارکہ ہے کہ: “آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ایک نابینا صحابی تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین سے فرمایا اندر جاو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ تو نابینا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ نابینا ہیں تم تو نہیں ہو” (ترمذی)
اسی وجہ سے مرد و عورت کے اختلاط کو بھی اسلام نے ممنوع قرار دیا۔ یہ ہے اسلام میں حیا کا تصور۔ لاکھوں درود و سلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ ان کی بتائی تعلیمات سے معاشرہ حیا دار ہوگا، بہنیں بیٹیاں اپنے بھائیوں اور والدین کے لئے رسوائی کا باعث نہیں بنیں گی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: “پچھلے انبیاء کی تعلیمات سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو” یعنی جس میں حیا نہیں اس سے کسی بھی برائی اور گناہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔
بطور مثال حیا کی اہمیت کا اندازہ اس واقعے سے لگائیں کہ غزوہ احد کے موقعے پر ایک خاتون کا جوان بیٹا شہید ہوا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بیٹے کے اخروی انجام کے بارے میں پوچھنے آئیں تو لوگوں نے کہا اس کا جوان بیٹا مرا اور یہ اس طرح لپٹی آئی ہیں تو ان خاتون نے جواب دیا میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے ایمان نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بے حیاء جس چیز میں ہو اس کو عیب دار بنائے گی اور حیا جس چیز میں ہو اس کو خوبصورت بنائے گی(ترمذی)۔نیز فرمایا: “حیا ایمان سے ہے اور ایمان کا بدلہ جنت ہے اور بے حیاء برائی کی جڑ ہے اور برائی کا بدلہ ٹھکانہ ہے” (ترمذی)۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی دنیا خوبصورت بنانے کے لئے حیا کے کلچر کو عام کریں معاشرے میں اگر حیا ہوگی تو سکون ہوگا۔ حیا ہی ہماری آخرت بنائے گی۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں