توہین رسالت کے مقدمات اور روایتی سست روی

نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ، بزرگی اور برتری پر میرے میں خود، میری اولاد اور میرے ماں باپ قربان ، مملکت خداداد پاکستان میں کسی دریدہ دہن کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے حوالے سے کسی بھی قسم کے نازیبا بات کی اجازت ہر گز نہیں دینی چاہیئے، کجا یہ کہ کوئی گستاخی کا ارتکاب کرے اور اسے قرار واقعی سزا نہ دی جائے۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عقیدت اپنی جگہ لیکن یہ بات کبھی بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیئے کہ رحمت اللعالمین ٹھہرائی جانے والی پاکباز ہستی کے نام پر خون خرابا اور دنگا فساد ہو۔

آج بروز بدھ سیشن کورٹ کے احاطے میں جج کی موجودگی میں توہین رسالت و توہین مذہب کے ایک ملزم کو اءک فرد نے پسٹل سے گولی کا نشانہ بناکر موت کے منہ میں اتارا۔ اب تک دستیاب معلومات کے مطابق پشاور کے رہائشی طاہر احمد نسیم پر نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے مدرسے کے ایک طالب علم نے توہین رسالت اور توہین مذہب کا الزام عائد کیا تھا اور اپنے الزام کی وضاحت میں مذکورہ طالب علم نے حکام کو یہ بتایا تھا کہ ملزم سے اس کی شناسائی فیس بک پر بات چیت کے ذریعے ہوئی اور بعد ازاں روبرو ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں ملزم نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا۔

مذکورہ طالب علم کی درخواست پر ملزم طاہر احمد نسیم کے خلاف تعزیرِات پاکستان کی دفعات کے تحت توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کا مقدمہ 25 اپریل 2018 کو تھانہ سربند میں درج کیا گیا تھا جبکہ درخواست گزار نے اپنے الزام کی صحت ثابت کرنے کے لیے یو ایس بی (USB) میں متعلقہ شواہد بھی حکام کو پیش کردیئے تھے تاکہ قانونی عمل مؤثر انداز میں آگے بڑھے۔

واضح رہے کہ ملزم نے ایک احمدی گھرانے میں جنم لیا تھا ، جن کے بارے میں پورے ملک کے مسلمانوں میں ویسے بھی غم و غصہ اور نفرت پائی جاتی ہے ، احمدی گھرانے سے تعلق کے ساتھ ساتھ ملزم امریکہ کا نیشنلٹی ہولڈر بھی تھا جس سے اس اندیشے کو مزید تقویت ملتی ہے کہ وہ کسی مشن پر گامزن تھا۔ یوں تو توہین رسالت کا ہر کیس انتہائی حساس ہوتا ہے اور اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ معاملے کے تمام تر پہلوؤں کا بغور جائزہ لینے کے بعد کوئی حکم صادر کیا جائے لیکن اسے ہماری عدلیہ کی روایتی سست روی کہیں، دانستہ غفلت یا کم ہمتی کہ ان معاملات کی سنگینی کو نظر انداز کرکے اس وقت تک ٹال مٹول کا رویہ اپنایا جاتا ہے جب تک کوئی فرزانہ خود ہی قانون ہاتھ میں نہ لے لے۔

ملزم کو قتل کرنا اگر ایک جرم ہے تو اس جرم میں ہماری عدلیہ برابر کی شریک ہے، بھلا کیونکر دو سال سے زیادہ کاعرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس بات کا تعین نہیں ہو پایا کہ درخواست گزار کا الزام درست تھا یا ملزم بے قصور تھا۔ ماضی کی مثالیں دیکھیں تو یہی روایتی سست روی معاملات کے بگڑنے کا باعث بنتی دکھائی دیتی ہے، دور نہ جائیں، آسیہ بی بی کا کیس ہی دیکھ لیں کہ اسے آٹھ سال تک جیل میں رکھنے کے بعد باعزت رہا کیا گیا لیکن اسی کیس کی وجہ سے سلمان تاثیر کو موت کے گھاٹ اترنا پڑا اور ممتاز قادری کو تختہ دار چومنا پڑا۔

میں مذہبی جنونیت کی حمایت نہیں کر رہا، کسی ایک فرد کو الزام کی بنیاد پر دوسرے کی جان لینے کے جواز نہیں گھڑ رہا لیکن آپ کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو ، آپ زمینی حقائق کو سمجھتے ہوں اور عوام کی اکثریت کے مزاج کو جانتے ہوں تو آپ اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ تادیر اس نوعیت کے کیسز کو لٹکائے رکھنا کسی بھی وقت کسی کے غیرت ایمانی میں ہیجان پیدا کرکے اسے قتل جیسے انتہائی اقدام پر آمادہ کرسکتی ہے۔

بہتر ہوگا کہ ہماری عدلیہ ایسے کیسز کا فیصلہ سالوں تک لٹکائے رکھنے کا رویہ ترک کرے اور سماعت کے عمل کو تیز ترین بناکر دنوں اور ہفتوں میں فیصلہ صادر کر لیا کرے اور اگر عدلیہ جرآت فیصلہ سے عاری ہو تو ان معاملات کی شنوائی کے لیے اکابر علماء کی کسی مجلس کا قیام عمل میں لانا کوئی مشکل امر نہیں کہ اس سے عدلیہ اور ملک و ملت کی رسوائی کا تدارک ہوگا، کسی قسم کے ظلم کی نفی ہوگی اور مذہبی جذبات اعتدال پر رہیں گے۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں