واقعی غوروفکر ، تدبر اور تفکر کی ایک اپنی حیثیت ہے ۔ اسی لئے قر آن میں جگہ جگہ تدبر اور تفکر کی دعوت دی گئی ہے ۔ ہر بدلتا لمحہ ہمیں ایک نیا سبق دیتا ہے ۔ ہر شر میں سے خیر نکلتی نظر آتی ہے تو انسان کا حوصلہ جوان ہوتا ہے رحمت رب پر حیران ہوتی ہے اور لبوں پر سبحان اللہ الحمد للہ خود بخود ادا ہوتا ہے ۔
انسا ن کی سوچ محدود ، اسکا علم محدود ، اس کا مشن محدود ، لیکن اس کی پرواز!!! نہ رکنے والی!!! اللہ تعالیٰ کی واقعی ہم مہربانیاں گن ہی نہیں سکتے اور نہ ہی کوشش کرتے ہیں ۔ ہاں مگر جب تھوڑی آزمائشیں آجا ئیںتو !! کتنی زیادہ کٹھن اور مشکل لگتی ہیں ! ہم سب نے سنا اور پڑھا ہے ناکہ اللہ تعالیٰ جب کسی پر مہربانی کا ارادہ کرتاہے تو اسکو کسی آزمائش میں ڈال دیتا ہے ۔
بند ہ مرضی سے نہ سہی مجبوری سے ہی رب کے قریب آجاتا ہے جبکہ آسودگی میں اسے اتنا رب کا خیال تک نہیں آتا مگر کیونکہ انسان کے اندر اللہ نے خیر اور شر رکھی ہے اور خیر کا جذبہ آخر کار غالب آتا ہے ۔ ماں کی عظمت اور محبت جکڑتی ہے باور کراتی ہے اس طرح رب کی محبت بلکہ بے لوث اور بے غرض محبت اور رحمت اس کا حصار کرتی ہے کہ وہ خود رب کے قدموں میں آجا تا ہے اس یقین کے ساتھ کہ جو رب ہے وہی سب ہے ۔ ہے نا ستر مائوں سے زیادہ مہربان قدر دان ! وہ کبھی اپنی مخلوق کو تنہا نہ چھوڑے گا ۔
آئے دن ہم ایک نئی صورتحال کا شکار ہوتے ہیں ۔ رب کی سرزنش کو محسوس کرتے ہیں توپھر استغفار کرتے ہیں اور رب کی رحمت مصیبت ٹال دیتی ہے ۔ ساتھ ہی بہت کچھ حوصلہ ہمت ، سلیقہ اور جینے کے طریقے سکھا جاتی ہے ۔ پوری دنیا اس وبا ئی صورتحال کا شکار یکسانیت دیکھیں ! سب کو ایک مرکز پر لا کر کھڑا کیا ہے ۔انسانی جان کی عظمت سمجھ آئی ۔ زندگی کی قیمت کا اندازہ ہوا؟ جو برسوں سے مائیں نہ کر پائیں ۔
لوگوں کی صبح نہیں ہوتی تھی ، دن چڑھے آنکھ کھولتے اور ایک ایک ، دو دو بجے دکانیں اور کاروبار کھولتے لوگ کیسے سیدھے ہوگئے ؟ صبح ہی صبح دکانیں بھی کھلنے لگیں ، شام جلد گھر آنے لگے ، وقت کی اور روشنی کی قدر پتا چلی ۔ کمیوں کوتا ہیوں کا پتا چلا ! رات کی نیند کی قدر معلوم ہوئی ؟ راتوں کا رت جگہ مہنگا پڑا ! شکر کریں اللہ نے دوبارہ فطرت کے اصول سمجھا دیئے جو کوئی نہ سکھا پا یا تھا ! کیا یہ خیر نہیں کہ آپ خواب غفلت سے جاگ جائیں ؟ صبح ہی صبح اللہ کے گھروں کو آباد کریں اذانوں پر لبیک کہیں اپنی نسلوں کو دین کا ورثہ دیں خود جاگیں اوروں کو جگائیں اپنا حق اپنا فرض نبھائیں کہ یہی انسانیت ہے ورنہ انسان جانور سے بدتر ۔
دھڑا دھڑ موتیں ، بے بسی دیکھی ؟ مگر شکر الحمد للہ جن کو دین کا شعور تھا وہ اتنا پریشان نہیں ہوئے انکے توکل نے انہیں وہ صبر اور حوصلہ دیا انکے کام بھی ہوتے رہے ۔ وہ بچے بھی رہے کیونکہ معلوم ہے کہ موت یقینی ہے اس سے یقین بڑھتا ہے ، تیاری نہ ہوئی تو پریشانی ہے اگلے مرحلے کی اور اگر تیاری مستقل رہی ، دعائیں اور خوف خدا طاری رہا ، امید رحمت جاری رہی تو پھر ٹینشن کیسا ؟ اسی خیال نے سکون دیا اطمینان دیا کہ اگر مرگئے اس کرونا سے تو بھی رحمتِ رب ہے کہ شہادت نصیب ہوگی ۔
میرے ماموں کئی بیماریوں میں مبتلا تھے ۔ رمضان میں انکی اہلیہ گزر چکی تھیں لوگ دعائیں کرتے تھے کہ اللہ پاک ان کی مشکل آسان فرمائے ۔ مگر موت کی وجہ “کرونا ” نکلی انہیں کچھ تکلیف بھی نہ ہوئی معمولی سانس ہوا اور انتقال فرما گئے گو یا وہی “شہادت کی موت” ! سبحان اللہ ہے کوئی جو یہ مرتبہ یہ مقام عطافرمائے ؟ سوائے رب کی ذات کے ۔ اسی طرح کتنے ہی خوش نصیب ہونگے جنہیں شہادت کی موت ملی یہ ہے قدرت کا انتخاب !! اسی طرح جو اس وبائی تکالیف کو سہہ کر بچ گیا ۔
اس کی دنیا ہی بدل گئی اس کے اندر انسانیت آگئی ۔ مقصد حیات واضح ہو گیا باقی ماندہ زندگی کو وہ حق ذمہ داری اور احساس شکر گزاری سے گزارے گا مگر جو ہدایت نہ لیں جو سبق نہ سیکھیں وہ ان موقعوں سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں جو قابل عبرت ہیں اور خود اپنی ذات کیلئے بڑ ا چیلنج ہیں اللہ انہیں توفیق عطا فرمائے ۔ بلا وجہ مہنگائی ، خود ساختہ من مانی، من چاہی کرکے دوسروں کو تکالیف دینا انسان کا شیوہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ مگر آج بھی جگہ جگہ آپ کے تجربے میں ہیں یا دوسرے آپکے ہی تجربات سے متاثر ہیں دونوں طرح کے تجربات اخلاقی اور غیر اخلاقی ؟ آپ خود کو جانچیں ؟ کہ یہ مواقع پھر نہ ملیں گے ؟ ؟
قدرت کا کمال دیکھیں کروڑوں لوگ دنیا بھر سے حج کی دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں ، اہتمام برسوں سے کئے بیٹھے ہیں باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔ دل و دماغ لگا ہوتا ہے ہر طرح کے تقاضے پورے کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہیں بلکہ شاید وہ بھی کروڑوں میں ہو ں جنکے پاس وسائل نہیں زاد راہ نہیں ۔ محض خواہش لئے ہوئے آس لگائے ہیں کہ حج بیت اللہ کریں ۔ طلب ہے ، تڑپ ہے ، لگن ہے مگر نا امیدی نہیں ۔ تو پھر دیکھ لیجئے کیسا حسین انتخاب ہے رب کا !!
اللہ اکبر خوش نصیب بندے ، چنیدہ بندے ، واقعی یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک کے بندے بذریعہ الیکٹرانک قرعہ اندازی منتخب ہوئے تو یہ ہوا نا انتخاب ۔ خالص رب کے فیصلے ۔ منتخب ہونے والے بہتی آنکھوں سے بتا رہے تھے کہ پچھلے سال جب وہ یہاں نو کری کی غرض سے آئے تھے تو وہم و گمان میں نہ تھا کہ یوں ہمارا انتخاب ہو گا وہ بھی حج کیلئے ۔ بس یہی خاص لوگ ہیں جنکے لئے عرفات منیٰ سجائے جارہے ہیں بلا لئے گئے ہیں ۔ رشک کے اس مقام پر امت مسلمہ کیلئے دعائیں کرنے والے یہی چنیدہ لوگ رب کا انتخاب ہیں سبحان اللہ !۔
شکر الحمد للہ ہمیں رب کے فیصلوں پر فخر ہے شکر ہے کہ ہمارے یہ مسلم بھائی ہر لمحہ ہمارے حق میں بھی دعائیں کرینگے اور اور رب کعبہ ہمیں ایسی سعادتیں عطا فرمائیں گے ، در پہ بلائیں گے ، قسمتیں جگائیں گے ، انشا ء اللہ (آمین) بس صبر ، شکر اور اپنے استقامت کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال جانتے ہیں وہ بڑے قدر دان ہیں ۔ اے دنیا بھر کے منتخب بندوں ہماری بھی دھڑکنیں تمہارے ساتھ ہیں ہر مرحلے اور ہر لمحے کی عبادت میں ہم تمہارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں کیونکہ اللہ سینوں کے رازوں کو جاننے والا ، ہمارا ولی ، ہمارا دوست ، ہماری شہہ رگ سے قریب رہنے والا ، نیتوں کا جاننے والا ہم پر کرم فرمائے گا ، ہر مقام پر عافیت عطا فرمائے گا ۔ اس نے کہا کہ تم جہاں بھی ہو وہ تمہیں پالے گا ۔
‘وہیں کعبہ سرک آیا جہاں میں نے جبیں رکھ دی “
والی بات تیرا ذکر کرنے والے ، تجھے یاد کرنے والے ، تو انہیں کیسے بھول سکتا ہے ؟ یہ پوری روئے زمین سجدہ گا ہے ۔ پس ہمیں بھی توبۃ النصوح اور ہماری جبینوں کو اپنی جانب رکھ ۔ ہمارا رخ صرف تیری طرف ہو ۔ تیرا کرم اور رحم ہی درکار ہے ۔ صرف مجھے ہی نہیں تمام امت مسلمہ کو ۔ تیری رحمت درکار ہے ہم سے راضی ہوجا ہمیں اس دنیا میں بھی عافیت دے ۔ تمام بلا ئوں سے نجات دے ۔ تیری رحمت تیرے غضب پر غالب ہے ۔ یا اللہ اس مقدس مہینے میں ہماری تمام دعائوں کو قبول فرما ۔ مرتے دم تک ہماری روحیں تیری ہی تکبیر کرتی ہوں اور مرنے کے بعد بھی ہمارا خاتمہ خیر ہو ۔ یعنی وہی والی بات کہ “مانگوں میں تجھ سے قطرہ تو اس کو سمندر کردے ” ۔ آمین