ارتغل ڈرامہ اور پاکستانی میڈیا

ترک ڈرامہ سیریل ارتغرل غازی نے گزشتہ پانچ سالوں سے ترک ناظرین کو تو اپنے سحر میں جکڑا ہی تھا مگر پاکستان میں بھی اس ڈرامے نے مقبولیت اور کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئیے ہیں، ہیں جس نے بہت سے حلقوں کو ششدر کر دیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق پی ٹی وی کے چیف مارکیٹنگ اینڈ سٹریٹیجی آفیسر نے ایک حالیہ اںٹرویو میں بتایاکہ، ” اردو ارطغرل نے تو ترک ارطغرل کا بھی ریکارڈ توڑ دیا۔ پاکستان میں اس ڈرامے کی پہلی قسط کو یوٹیوب پر صرف پندرہ دن میں 16 ملین سے زیادہ بار دیکھا گیا، جبکہ ترک ارطغرل کi پہلی قسط کو پانچ سال میں تیرہ ملین بار دیکھا گیا”

پاکستانی میڈیا انڈسٹری سے وابستہ تجزیہ نگار ارتغل ڈرامے کی اس کامیابی کی وجوہات تلاش کرتے ہوئے بہت سے عوامل کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو پاکستان میں ارتغل ڈرامے کی کامیابی حیران کن اور ناقابل فہم ہر گز نہیں ہے۔ بظاہر اس کی وجہ صاف نظر آتی ہے۔ پاکستانیوں نے برسوں سے اپنے ٹی وی چینلز پر،چاہے وہ نجی ہوں یا سرکاری، غیرجاندار ، تھکے ہوئے، رٹے پٹے، غیر معیاری اور مخصوص موضوعات پر ڈراموں و فلموں کی تکرار دیکھی ہے۔ ان ڈراموں و فلموں میں تاریخ، تہذیب اور ثقافت جیسے وسیع اور خوبصورت دائروں کا احاطہ کرنے کی کبھی کوئی معیاری یا کامیاب کوشش نہیں کی گئی۔

ارتغل ڈرامہ اپنی دانست میں ایک فنی شاہکار تو ہے ہی مگر پاکستان میں اس کی کامیابی کی اصل وجہ اس کا وہ تہذیبی و ثقافتی پہلو ہے جس نے مسلمانوں پر گزشتہ ایک صدی سے چھائی غلامی کی نفسیات کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ یہ وہ اثرات تھے جن کو مغربی میڈیا اور نام نہاد لبرل دانشور حضرات نے برسوں کی جدوجہد اور محنت کے بعد مسلم نوجوانوں کے ذہنوں پر مسلط کر رکھا تھا۔ مگر اس ڈرامے کی خوبی یہ ہے کہ اس کی محض چند اقساط دیکھنے کے بعد ہی آپ کو نہ صرف اسلامی تہذیب پر فخر اور اپنے زور بازو پر اعتماد کی دولت نصیب ہوتی ہے بلکہ ساتھ ہی اغیار کی عسکری برتری اور بے پناہ طاقتور ہونے اور مسلم امہ کی بے بسی کا پژمردہ احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔

اس ڈرامے نے بلا شبہ مسلم امہ کو اور بالخصوص نوجوان نسل کو امید اور حریت کا ایک نیا درس دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ڈرامہ اپنی کاسٹ کے آغاز سے ہی نام نہاد لبرل و سیکولر حلقوں کی آنکھ کا کانٹا بنا ہوا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے بہت سے اداکاروں اور ڈرامہ نگاروں نے بھی” اپنی دکان بند ہوتی دیکھ کر” اس پرکئی تنقیدی سوالات اٹھائے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی ڈرامہ و فلم انڈسٹری سے وابستہ تمام ذمہ داران کے لئیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

کسی خاص تشہیری مہم کے بغیر سیزن کے آغاز میں ہی ارطغرل ڈرامے کی مقبولیت ان پاکستانی میڈیا مالکان کے لئیے نوشتہ دیوار ہے جو ہر قسم کی بے ہودگی اور اور فحش مواد کو ڈھٹائی سے پیش کرتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ” ہم وہی پیش کریں گے جو اکثریت ڈیمانڈ کرے گی” اگرچہ یہ دلیل بذات خود بہت بھونڈی ہے کیونکہ میڈیا کو اکثریتی ڈیمانڈ کے بجائے ایک ذمہ دار ادارے کے طور پر معاشرے کی مثبت تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے مگر آج ارطغرل ڈرامے کی پذیرائی نے اس دعوے کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے کہ اکثریت صرف گلیمر اور عشقیہ داستانوں کے پیچھے بھاگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ، تہذیب، ثقافت، مذہب، سیاست، تعلیم ۔۔۔۔ ان موضوعات کو آج تک پاکستان میں ڈراموں اور فلموں کے ذریعے زیر بحث لایا ہی نہیں گیا۔ اگر کہیں دو چار مثالیں موجود بھی ہیں تو وہ پست معیار اور بے تحاشا تیکنیکی خرابیوں کے باعث پسندیدگی کا درجہ حاصل نہ کر سکیں۔

دوسری طرف ہمارے رائٹرز اور پروڈیوسرز حضرات کو بھی سوچنا چاہئیے کہ ایک ایسا ڈرامہ جس میں نہ پاکستانی ثقافت کی کوئی جھلک ہے نہ ہی موجودہ حالات کی کوئی عکاسی ہے۔ نہ مرد و عورت کے تعلق کے گرد گھومتی کوئی عشقیہ داستان ہے اور نہ ہی ساس بہو دیورانی جیٹھانی نند بھاوج کی لڑائیوں اور مرچ مسالوں پر مبنی کوئی کہانی ہے۔ اس کے باوجود یہ ڈرامہ اگر مقبولیت حاصل کر رہا ہے تو کیا یہ غور طلب پہلو نہیں کہ صرف مخصوص موضوعات پر ہی ڈراموں اور فلموں کی تکرار کے بجائے دیگر بہت سے موضوعات کو تسخیر کرنے کی ضرورت ہے۔ خدارا نوجوان نسل کو رومانوی داستانوں اور خیالی دنیا کے سحر میں مبتلا رکھنے کے بجائے حال کی دنیا میں رہنا اور حقیقت پسند بننا سکھائیے۔ کہ ؎

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوگان نے بجا طور پر اس ڈرامے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ : ’’جب تک شیر اپنی تاریخ خود نہیں لکھیں گے تب تک شکاری ہی ہیرو بنے رہیں گے‘‘۔ضرورت ہے کہ پاکستانی میڈیا مالکان و پروڈیوسر حضرات بھی ارتغل ڈرامے پر بے جا تنقید کے بجائے معیاری پروڈکشن پر توجہ دیں اور ایسے شاہکار تخلیق کریں جو نوجوان نسل کو امید، جدوجہد اور خود داری کا پیغام دیں۔ وہی پیغام جس کی آج اس قوم کو اشد ضرورت ہے۔

جواب چھوڑ دیں